پانی کی قلت : ایک سنگین مسئلہ
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں پانی کے بہتر انتظام کیلئے جامع حل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے فی کس پانی کی دستیابی میں کمی آئی ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعرات کے روز ملک میں پانی کے بہتر انتظام کے حوالے سے ہونیوالے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
دنیا میں جن ممالک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ان میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو 2030 ء تک پاکستان میں فی کس 500 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہو گا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائٹڈ ڈیویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) نے اس ضمن میں ہمیں باقاعدہ وارننگ بھی دے رکھی ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق جب کسی ملک میں پانی کی فی کس مقدار 1000 کیوبک میٹر سالانہ رہ جائے تو اس ملک میں پانی کی کمی کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ پاکستان ایک زعی ملک ہے اور یہاں پر زیر زمین پانی کا سب سے زیادہ استعمال زراعت کیلئے کیا جاتا ہے جبکہ صورتِحال یہ ہے کہ زیر زمین پانی کی مقدار مسلسل کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں پانی ذخیرہ کرنے کی کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوشش ہ نہیں کی۔ صدر جنرل ایوب خان کے دور میں جو بڑے بڑے ڈیم بنے انہی سے نکالی جانیوالی نہروں سے آبپاشی کیلئے پانی حاصل کیا جاتا ہے لیکن جو نہریں دریائے راوی، ستلج اور بیاس سے نکالی گئی تھیں ان میں پانی کی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے کہ ان دریائوں کے اوپر بھارت نے بہت سے ڈیم بنا کر انکے پانی کو اپنے لیے روک رکھا ہے اور صرف اسی وقت وہ یہ پانی چھوڑتا ہے جب وہاں سیلاب کی صورت پیدا ہو جائے ۔جو پانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے وہ ہمارے پاس ریزروائرز نہ ہونے کی بنا پر ضائع ہو جاتا ہے اور سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے بڑے ریزروائر بنائے جائیں اور جو پانی دستیاب ہے اسکے بے دریغ استعمال پر قدغن لگائی جائے اور جن جگہوں پر پانی کا بے مہابہ استعمال ہوتا ہے وہاں پر پانی کے میٹرز نصب کئے جائیں تاکہ مستقبل میں پانی کی جس شدید قلت کا ہمیں سامنا ہو سکتا ہے اس پر پہلے سے ایک جامع منصوبے کے تحت قابو پایا جا سکے۔