حکومت نے ایک روپے پچانوے پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کر دی ہے یہ بھی یاد رہے کہ عوام دوست حکومت نے گذشتہ ماہ بھی ایک روپیہ چھ پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا تھا۔ یوں محض تین ہفتوں میں بجلی کی قمیت میں فی یونٹ تین روپے سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ خوشیوں کے اس دور میں جب ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں، ادرک کی چائے اور شہد والا قہوہ پیا جا رہا ہے، خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بھنی ہوئی مچھلی کھائی جا رہی ہے، دیسی گھی میں پکا ہوا بکرے کے گوشت جیسی بڑی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، کبھی کبھی ہرن کا گوشت بھی زندگی کا مزہ بڑھا دیتا ہے، تازہ پھلوں کے جوس، مہنگی کافی اور ہر دوسرے دن بار بی کیو نے زندگی کا مزہ دوبالا کر دیا ہے۔ بڑے بڑے گھر، لگڑری گاڑیوں میں گھومتے گھومتے ہم پاکستانی تو آنسوؤں کا مزہ ہی بھول چکے تھے۔ حکومت کا بھلا ہو کہ اس نے ہم بھولے بھٹکے لوگوں کو آنسوؤں کا ذائقہ چکھنے کا موقع دیا ہے۔ یہ حکومت کی مہربانی ہے کہ اس نے عام آدمی کو ایک مرتبہ پھر رونے کا موقع فراہم کیا ہے، یہ حکومت کی کمال اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس نے عام آدمی پر رحم کرتے ہوئے اسے حقیقت کی طرف واپس بلایا ہے۔ رونا ہی زندگی ہی سب سے بڑی حقیقت ہے ہیونکہ انسان روتے ہوئے دنیا میں آتا ہے اور جب وہ جاتا ہے تو سب روتے ہیں۔ ہم پاکستانی اتنے خوش تھے کہ اس حقیقت کو بھول چکے تھے بلکہ اس سے بہت دور نکل چکے تھے، ہم پاکستان تحریکِ انصاف کی منتخب، عوام دوست اور فکری صلاحیتوں سے مالا مال اس حکومت کے مشکور ہیں جو ہمیں راہ راست پر آنے کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔ چند شرپسندوں کو ہماری حقیقت کی طرف واپسی اچھی نہیں لگ رہی یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ حکومت نے تو ہمیں آنسوؤں جیسی عظیم نعمت کو جاننے کا موقع دیا ہے۔ میں تو حکومت کا دل سے مشکور ہوں کہ وہ حقیقی تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں مجں اضافے کی خبریں سنتے سنتے میں گھر سے باہر نکلا دروازے پر کھڑا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ہمسائے باہر نکلے انہوں نے گلاب کے پھول اور مٹھائی کا ڈبہ پکڑ رکھا تھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے میرے پاس آئے زاروقطار رونے اور درخواست کرنے لگے کہ پھولوں کا گلدستہ اور مٹھائی کا ڈبہ قبول فرمائیں، کہنے لگے آپ تو روزانہ کالم لکھتے ہیں، آپکی رہائش گاہ پر سیاست دان بھی آتے جاتے رہتے ہیں، آپ کی تصاویر اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ساتھ بھی دیکھنے کو ملتی ہیں یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں تک آپ کی رسائی ہے۔ ہماری طرف سے یہ تحفہ قبول فرمائیں چونکہ ہم دہائیوں سے رونا بھول چکے تھے اس حکومت نے ہمیں رونے کا موقع فراہم کیا آپ جب کبھی گورنر ہاؤس جائیں، وزیر اعلیٰ ہاؤس کا چکر لگے یا وزرائ سے ملاقات ہو تو ہمارے جذبات ضرور ان تک پہنچائیے گا۔ ہم برسوں سے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے اصل زندگی تو یہی ہے، متوازن زندگی تو یہی ہے کہ انسان کو ہنسنے کے ساتھ ساتھ رونے کا موقع بھی ملے، انسان کو خوشیوں کے ساتھ غموں سے آشنا بھی ہونا چاہیے۔ ہماری زندگیاں عدم توازن کا شکار تھیں اس عدم توازن کو ختم کرنے پر ہم حکومت کے مشکور ہیں۔ میں نے محبتوں بھرا تحفہ وصول کیا اور پیغام حکمرانوں تک پہنچانے کا وعدہ آج بذریعہ سائرن پورا کر رہا ہوں۔ اسی طرح درجنوں ای میلز، کالز اور میسجز بھی موصول ہوئے ہیں اکثریت حکومت کی طرف آنسو بہانے کا موقع فراہم کرنے پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہے۔ بعض تو ایسے بھی تھے جنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مرتے وقت بھی تو لوگ روتے ہی ہیں حکومت نے ابھی سے مشق شروع کروا کر اچھا کیا ہے تاکہ یہ نہ ہو کہ عین وقت پر شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
بہر حال جب میں پیغامات کے اس مرحلے سے باہر نکلا حقیقی زندگی میں واپس آیا تو پھر میرے غصے کا نشانہ ماضی کے وہ حکمران تھے جنہوں نے عام آدمی کو تو چکما دیا ہی ہے ساتھ ہی انہوں نے ملک کے بڑے بڑے اور تجربہ کار لوگوں کو بھی "ماموں" بنا ڈالا ہے۔
غارت ہوں ایسے حکمران جو جاتے جاتے ایسے ایسے معاہدے کر گئے اور ایسی معاشی بارودی سرنگیں بچھا کر گئے کہ نئے آنے والے حکمرانوں کو بائیس سال کی مسلسل جدوجہد اور بہترین تیاری کے باوجود علم ہی نہ ہو سکا کہ میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم نے ایسے ایسے تباہ کن معاہدے کر رکھے ہیں کہ آنے والوں کے لیے ہر طرف صرف تباہی ہے۔ اب بارود میاں صاحب کا رکھا ہوا ہے اور یہ بارود چلانے کی ذمہ داری پاکستان تحریکِ انصاف کو مل چکی ہے جس نے بارود بچھایا تھا وہ لندن میں سیریں کر رہا ہے، کافیاں پی رہا ہے اور یہاں لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ حکومت تو یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ان چیخوں کی ذمہ دار بھی ماضی کی حکومتیں ہیں کیونکہ تکلیف تو دو ہزار سولہ سترہ سے تھی لیکن اس میں شدت دو ہزار اٹھارہ کے بعد ہی پیدا ہوئی ہے اور تکلیف بھی ایسی ہے کہ معمولی دوا سے ختم بھی نہیں ہو گی اس کے لیے آپریشن ہی کرنا پڑے گا۔ بہرحال میاں صاحب کی عدم موجودگی میں ان کی بچھائی سرنگوں سے عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت تو صرف میاں صاحب کے کیے گئے معاہدوں کی تعمیل اور تکمیل میں مصروف ہیں جب تک یہ معاہدے ختم ہوں گے اس وقت لوگ اتنی مہنگی بجلی کے عادی ہو چکے ہوں گے اس لیے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوتی یا نہیں یا پھر کوئی اور حکومت جانے والوں کے کھاتے میں ڈال کر ایک کے بجائے دو اور دو کے بجائے چار روپے فی یونٹ قیمت میں اضافہ کر دے۔
خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ انہیں فارن فنڈنگ کی براہ راست کارروائی پر کوئی اعترض نہیں ہے۔ خواجہ صاحب کو پہلے بیرون ملک قائد سے مشاورت ضرور کر لینی چاہیے یہ نا ہو کہ میاں صاحب وہاں سے اس پیشکش پر برہم ہوں اور خواجہ سعد رفیق کو یوٹرن لینا پڑے کیونکہ یہاں تو بڑوں بڑوں کے پر جل جائیں گے۔ سعد رفیق کو چاہیے کہ وہ اس کارروائی کو براہ راست نشر کرنے یا الیکشن کمشن میں درخواستیں جمع کروانے کے بجائے پارلیمنٹ میں لے کر آئیں یہ معاملہ اور اس جیسے تمام معاملات پارلیمنٹ میں آنے چاہییں۔ سیاست دانوں میں اتنی اخلاقی جرات، برداشت، ہمت و سمجھ بوجھ ہونی چاہیے کہ وہ باہمی تنازعات کو ناصرف خود حل کریں بلکہ اپنے تمام اثاثوں کو صاف شفاف انداز میں عوام کے سامنے رکھیں اور ہر وقت انہیں جوابدہ ہوں۔ یہاں تو سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ ہی اچھا برتاؤ نہیں کرتے وہ عام آدمی کو کیا خاک اہمیت دیں گے۔ اصولی طور پر ہر قسم کی سیاسی فنڈنگ عام ہونی چاہیے اور یہ سارا ریکارڈ عوام کے سامنے ہونا چاہیے لیکن ناصرف غیر ملکی امداد چھپائی جاتی ہے بلکہ عام آدمی کو اندھیرے میں رکھنے کے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ فارن فنڈنگ کیس پانامہ ٹو بنے گا۔ دیکھتے ہیں جو حال پانامہ ون میں شامل لوگوں کا ہوا ہے وہی حال پانامہ ٹو کے کرداروں کا نہ ہو جائے۔ شیخ صاحب کو سب علم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے کیا ہو جا رہا ہے اگر وہ بیخبر ہوتے ہیں تو صرف اپنی وزارت سے ہوتے ہیں باقی ہر جگہ سے انہیں پل پل کی خبر مل رہی ہوتی ہے۔ شیخ صاحب نے دعویٰ کیا ہے تو اب انہیں ثابت کرنا چاہیے کہ پانامہ ٹو کیسے بنے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024