جوبائیڈن کی بطور امریکی صدر کی حلف برداری‘ وزیراعظم عمران خان کی مبارکباد اور مل کر کام کرنے کی پیشکش
جوبائیڈن نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور وہ امریکہ کے 46ویں صدر بن گئے۔ نائب صدر کملاہیرس بھی حلف اٹھا کر پہلی امریکی خاتون نائب صدر بن گئیں۔ امریکہ کے 46ویں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کا دن ہے‘ یہ جمہوریت کا دن ہے‘ آج ہم ایک امیدوار نہیں بلکہ ایک مقصد کی کامیابی منا رہے ہیں۔ میں امریکی آئین کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں‘ انہوں نے کہا کہ امریکی قوم عظیم ہے‘ ہمیں بہت کچھ درست کرنا ہے‘ بہت سے زخموں پر مرہم رکھنا ہے‘ نسلی امتیاز کے خاتمے کا خواب اب مزید ٹالا نہیں جا سکتا۔ آج میری روح قومی اتحاد اور نسلی اتحاد کے مقصد سے جڑی ہے۔ جانتا ہوں ہمیں تقسیم کرنیوالی طاقتیں گہری ہیں اور حقیقت رکھتی ہیں۔ آج جمہوریت جیت گئی ہے۔ جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ماضی کی طرح آج بھی ہم سب مل کر امن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ہمیں آج حقیقی معنوں میں متحدہ ریاست ہائے امریکہ بننا ہوگا۔ اختلاف بغیر لڑائی‘ تشدد کے حل کئے جا سکتے ہیں۔ جوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد ایم خان اور انکی بیگم روزناریہ اسد نے کی۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن کو مبارکباد دی ہے۔ ٹویٹ میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ جوبائیڈن کے ساتھ تجارت‘ معاشی انگینج منٹ‘ کرپشن کے خاتمہ اور خطے اور اس سے باہر امن کے فروغ کیلئے پاک یوایس پارٹنر شپ کو مستحکم بنانے کیلئے مل کر کام کے منتظر ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے بھی جوبائیڈن کو مبارکباد دی اور امید ظاہر کی کہ جوبائیڈن مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کیلئے بھرپور کردار ادا کرینگے۔
امریکی تاریخ میں پہلی بار اقتدار کی پرامن منتقلی سوالیہ نشان بنی نظر آئی۔ ٹرمپ نے جوبائیڈن کی کامیابی کو صدارتی الیکشن میں دھاندلی سے تعبیر کیا اور ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے 6 جنوری کو نو منتخب امریکی انتظامیہ کی توثیق کیلئے بلائے گئے کانگرس کے اجلاس کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنے حامیوں سے حملہ کرادیا جس میں پولیس اہلکار اور خاتون سمیت 5 افراد ہلاک ہو گئے۔ اسکے بعد ٹرمپ کے خلاف شدید ردعمل آیا۔ ان کیخلاف مواخذے کی کارروائی کا اعلان ہوا۔ غداری کے مقدمات کے مطالبات ہونے لگے تو ٹرمپ کے رویے میں واضح تبدیلی نظر آئی۔ انہوں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے جوبائیڈن کیلئے راستہ چھوڑ دیا۔ 20 جنوری کو جوبائیڈن نے امریکی صدر کا حلف اٹھایا۔ ٹرمپ نے جوبائیڈن کی حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔ یہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ وائٹ ہائوس سے جانیوالے صدر نے اپنے جان نشین کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت نہ کی ہو۔ ٹرمپ نے البتہ جوبائیڈن کو بے دلی سے ہی مبارکباد دی ہے۔ اس سے سیاسی کشیدگی میں بڑھتا ہوا گراف روکنے میں مدد مل سکتی ہے مگر ٹرمپ کے رویے نے امریکی نظام اور روایات کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
ٹرمپ نے نئی انتظامیہ کیلئے کئی مسائل چھوڑے ہیں۔ اندرونی طور پر ٹرمپ دور میں نسل پرستی کو ہوا دی گئی۔ جوبائیڈن کی فتح کو تسلیم نہ کرکے امریکیوں میں سیاسی تقسیم کو گہرا اور نفرتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ جوبائیڈن کیلئے وہ سب سے بڑا چیلنج کرونا کی صورت میں چھوڑ گئے۔ کرونا سے نمٹنے‘ اسکے پھیلائو کو روکنے کیلئے ٹرمپ نے شروع میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ پانی سر سے اوپر چلا گیا تو ہوش کے ناخن لئے مگر اس وقت کرونا کنٹرول سے باہراور ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن چکا تھا۔ امریکہ کیلئے خارجہ معاملات بھی ٹرمپ کافی حد تک بگاڑ گئے۔ افغانستان میں امن کی بحالی کے معاملے میں بھی انکی پالیسی مثبت رہی۔ ٹرمپ کا مسلم ممالک بارے رویہ معاندانہ رہا جس کا اعلان وہ اپنی صدارتی مہم میں کر چکے تھے۔ ٹرمپ نے کوئی نئی جنگ توشروع نہیں کی جس کے کریڈٹ کے وہ دعویدار بھی ہیںلیکن چین اور ایران کے ساتھ حالات کو وہ جنگ کی طرف ہی لے جا رہے تھے۔ ان کو ایک اور ٹرم اور مل جاتی جس کا وہ یقین کئے ہوئے تھے تو مذکورہ ممالک کیخلاف جنگ کی نوبت آسکتی تھی۔ جنگ کی دھمکیاں تو دینے میں ٹرمپ’’ شیر‘‘ تھے۔ پاکستان کو بھی جنگ کی دھمکیاں دیتے رہے۔ امداد بھی بند کردی تھی۔
ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کی امید دلائی‘ پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کی۔ ثالث ہونے کیلئے غیرجانبداری اولین شرط ہے۔ مودی نے ٹرمپ کی ثالثی کو مسترد کردیا۔ اس پر ٹرمپ نے خاموشی اختیار کرلی۔ تاہم جلد ہی وہ مودی اور بھارت کے شانہ بشانہ ہو گئے۔ خطے میں ایسی غیرمتوازن امریکی پالیسی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے نائن الیون کے بعد فرنٹ لائن اتحادی قرار دیا جاتا رہا۔ پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر افغان وار میں امریکہ کا ساتھ دیا حتیٰ کہ پاکستان خود بھی بدترین دہشت گردی کا شکار ہوا۔ بھارت کے ایماء پر امریکہ نے پاکستان سے دوریاں اختیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو بدترین بے اعتمادی اور کشیدگی پر منتج ہوا۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں بھارت کو جدید اسلحہ کی فراہمی کے معاہدے کئے۔ اُدھر امریکہ میں صدارتی الیکشن ہو رہے تھے اِدھر امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رہے تھے۔ امریکہ بھارت کو چین کیخلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارت کا اول و آخری ہدف پاکستان ہے۔
جوبائیڈن ٹرمپ کے صدارتی دور سے قبل امریکہ کے نائب صدر تھے۔ وہ خطے کے حالات کو بڑی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ڈیموکریٹس کی خارجہ پالیسی نسبتاً پاکستان کی حمایت میں رہی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ جوبائیڈن خطے کے سلگتے مسائل کے پرامن حل کی طرف توجہ دیں گے جس میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل کشمیر ایشو ہے۔ اسکے بعد افغان مسئلہ ہے۔ افغان مسئلہ ٹرمپ کافی حد تک طے کرا گئے ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ ٹرمپ کی افغان پالیسی کو جاری رکھے تو بہتر ہے۔ کشمیر اور افغانستان کے مسائل حل ہو جاتے ہیں تو خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے جس کے مثبت اثرات عالمی امن پر بھی یقیناً پڑیں گے۔ پاکستان کو جوبائیڈن کے پالیسی خطاب کا انتظار ہے جس کے بعد صورتحال سامنے آئیگی کہ وہ عالمی امن کیلئے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ ایک بات تو واضح ہو گئی کہ امریکیوں نے صدارتی الیکشن میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی کو مسترد کر دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024