جمعۃ المبارک‘ 8؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 22؍ جنوری 2021ء
براڈ شیٹ نے بنارسی ٹھگوں کو بے نقاب کر دیا۔ شبلی فراز
شبلی فراز کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کی تقریر کو دلپذیر بھی کہا جا سکتا ہے۔ بنارسی ٹھگوں کی ایک اپنی داستان ہے اس پر بے شمار افسانے اور ناول لکھے جا چکے ہیں۔ فلمیں بھی بن چکی ہیں، جن میں دلیپ کمار کی ’’بھوانی جنکشن‘‘ ایک آرٹ فلم ہے۔ انگریزوں کے راج تک ان کا دور دورہ تھا اندرون ہندوستان کی کوئی شاہراہ ان سے محفوظ نہیں تھی۔ وہ جہاں چاہتے کسی بھی مسافر کو شکار کر لیتے۔ صرف لوٹنا ہی ان کی عادت نہیں تھی۔ یہ نہایت بے دردی سے کسی رسی یا رومال سے مسافرکا گلا گھونٹ کر اسے قتل بھی کر دیتے تھے۔ ان کی اس سفاکی کی وجہ سے لوگ تنہا سفر سے گریز کرتے تھے۔پاکستان میں بھی ایک فلم ’’بنارسی ٹھگ ‘‘ بنی مگر اس میں ماڈرن انداز سے لوگوں کو لوٹنے والوں کو موضوع بحث بنایا گیا۔ اس فلم میں منورظریف کی اداکاری دیکھنے والی ہے۔ جب سے نیا دور آیا ہے ہماری صحافتی اور سیاستی زبان میں کئی محاوروں اور ضرب الامثال کے معنیٰ ہی بدل گئے ہیں۔ سو اب تعلیم یافتہ مہذب سوٹڈ بوٹڈ اشرافیہ کو بھی ’’بنارسی ٹھگ ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ یہ سب کچھ ان کی لوٹ مار کی وجہ سے ہوا ہے۔ سیاست دانوں کو بھی بنارسی ٹھگ کہا جاتا ہے۔ ہر آنے والا جانے والے حکمران کے لئے یہی لفظ استعمال کرتا ہے۔ ایسا کرنے والے شاید فلم بنارسی ٹھگ کا آخری سین فراموش کر دیتے ہیں جس میں بنارسی ٹھگ کو جب اس کا استاد گولی مارتا ہے تو مرتے ہوئے وہ بھی یہ کہتے ہوئے اسے گولیاں مارتا ہے کہ ’’استاد ہم نے حرام کا مال بھی اکٹھا کھایا تھا اب گولیاں بھی اکٹھی کھائیں گے‘‘
٭٭٭٭٭
ڈونلڈ ٹرمپ حسرت و یاس کی تصویر بنے وائٹ ہائوس سے رخصت
وائٹ ہائوس سے نکلتے ہوئے سابق صدر ٹرمپ کے چہرے پر جو دکھ اور بے بسی نظر آ رہی تھی اس پربے ساختہ
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
لو جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
والا شعر یاد آتا ہے۔ سر میں غرور ، چہرے پر نفرت اور زبان سے ہر ایک کا تمسخر اڑانے والا یہ شخص امریکی معاشرے کو انتہا پسند نظریات کا گڑھ بنا گیا۔ نسلی تعصب کی ایسی آگ بھڑکا گیا کہ گورے کالوں کے دشمن بن گئے۔ تارکین وطن کے لئے امریکہ میں رہنا دشوار ہو گیا۔ غیر ملکیوں کے لئے امریکہ شجر ممنوع قرار پایا۔ مسلمانوں کے ساتھ تو ٹرمپ کو خدا واسطے کا بیر تھا۔ اس کی کوشش رہی کہ وہ ہر مسلم ملک کو زیر دام لائے۔ بہرحال ٹرمپ جی کی اکثر خواہشیں بے مراد رہیں اور وہ وائٹ ہائوس نہ چھوڑنے کے اعلانات اور گیڈر بھبھکیوں کے باوجود وہاں سے رخصت ہو گئے۔ اب وہ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ دل ہی دل میں
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے میرے گناہ کا حساب اے خدانہ مانگ
کہتے اپنے آبائی گھر میں قیام کے لئے پہنچ چکے ہوں گے یا وہ اقتدار سے مگر انہیں آرام کہاں سے آئے گا۔ جتنا انہوں نے دنیا والوںکو بے آرام کیا اب خود بھی بے آرام ہوں گے۔ کہاں ان کے جیت کے دعوے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کی دھمکیاں۔ کہاں یہ حالت جسے دیکھ کر سب
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
کہتے ہوئے زیرلب مسکرا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف ریفرنس سیاسی انتقام ہے: پیپلز پارٹی
یہ تو بہت نرم زبان استعمال کی ہے ترجمان پیپلز پارٹی نے۔ ورنہ گزشتہ روز تو پیپلز پارٹی کے ایک وزیر باتدبیر نے مراد علی شاہ پر ریفرنس کو سندھ پر حملہ قرار دیا تھا۔ کسی سیاسی رہنما کو صوبے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ ورنہ ہر جماعت کے پاس ایسے درجنوں رہنما موجود ہوتے ہیں۔ اگر ان سب کو صوبے کا درجہ دینا شروع ہو گئے تو پھر ہمارے ملک میں رہنما کم اور صوبے زیادہ بن جائیں گے جس سے خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔ ہر حکومت مخالفین کو قابو میں رکھنے کے لئے ان پر کیس بناتی ہے۔ کسی پر سائیکل ،کسی پر بھینس ، کسی پر پانی چوری یا کسی پر بم رکھنے کا ، مگر یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ اس وقت تک ہماری سیاست میں ناجائز سرمائے کا عنصر داخل نہیں ہوا تھا۔ سرمایہ کاری اور سرمایہ چوری کی عادت صرف سرمایہ داروں تک تھی یا اشرافیہ اس کارخیر میں ملوث تھے۔ جب مال و زر ، نمود و نمائش اور مال کمانے کا ہنر سیاستدانوں میں بھی عام ہوا تو پھر اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ اب سیاستدانوں کے خلاف مالی بدعنوانیوں کے ریفرنس دھڑا دھڑ داخل ہو رہے ہیں۔ یہ بات اختیارات کے ناجائز استعمال سے بھی زیادہ معیوب ہے کیونکہ اس سے آپ کی دیانتداری پر سوال اٹھتا ہے۔ اس لئے ایسے ہرالزام کا جواب دینا ضروری ہے۔ اسے سیاسی انتقام کہہ کر جان چھڑانا ممکن نہیں۔
٭٭٭٭٭
خالصتانی جنگی ترانوں کو بلاک کرنے کے لئے مودی حکومت سرگرم
مگر کیا ایسا کرکے بھارت کے حکمران پنجابی کسانوں کی تحریک کو ختم کر سکیں گے۔ کیا ایسا کرنے سے خالصتان کی تحریک کا زور توڑا جا سکے گا۔ نہیں ایساکچھ بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ …؎
جو دریا جھوم کے اٹھتے ہیں
تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
پنجاب کا اپنا جاندار ثقافتی رنگ ہے ، پنجابی زبان و ادب اور پنجاب کی زرخیز مٹی سے اٹھنے والی ہر آواز گونج دار ہوتی ہے ، جبھی تو مزاحمتی ادب میں یہ رنگ گہرا نظر آتا ہے۔ خالصتان کے حوالے سے سکھ ہمیشہ جذباتی رہے ہیں۔ ماسٹر تارا سنگھ کے بارہ نہ بجے ہوتے تو آج خالصتان دنیا کے نقشے پر موجود ہوتا اور سکھوں کو یوں خوار نہ ہونا پڑتا۔ قائداعظم سکھوں کو علیحدہ وطن دینے کے لئے تیار تھے۔ آج خود سکھ رہنما اور دانشور یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کف افسوس مل رہے ہیں کہ کاش سکھ رہنمائوں نے قائد اعظم کی بات مان لی ہوتی۔ اب کسان تحریک میں پنجابی فنکار اور شاعر بھی شرکت کرتے ہیں۔ وہاں پنجابی میں ولولہ انگیز نظمیں ، ٹپے اور دوہے پڑھے جاتے ہیں ، جس میں کہیں کھل کر کہیں دبے لفظوں میں خالصتان کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ لوگ اس پر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں وٹس ایپ اور یوٹیوب استعمال کرنے والے پنجابی سکھ اور کسان اس کو پسند کرتے ہیں ان پر تبصرہ کرتے ہیں یہ سب کچھ اب مودی سرکار بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر یہ آگ اب پابندیوں سے بجھنے والی نہیں۔