18 جنوری کو، وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنے ایک "Tweet"میں کہا کہ ’’ پی ڈی ایم ‘‘ (Pakistan Democratic Movement)کی ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے اور یہ اُلّو ہی اُن کی شاخوں کو کاٹ رہے ہیں ‘‘۔معزز قارئین ! ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صا حبہ کی گفتگو تاریخ پاکستان کے ایک واقعہ سے متعلق ہے جب، فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے سگے چھوٹے بھائی ( اُن کی حکومت کی مخالف سیاسی جماعت )’’پاکستان مسلم لیگ کونسل ‘‘ کے مرکزی سیکرٹری جنرل ( اور رُکن قومی اسمبلی تھے ) ۔سردار بہادر خان نے سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز اُلدّین خان سے مخاطب ہو کر کسی اُستاد شاعر کا یہ شعر پڑھا تھا کہ …
یہ راز تو کوئی راز نہیں ، سب اہلِ گلستاں جانتے ہیں!
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟
…O…
تو ایوان میں کھلبلی مچ گئی اور میڈیا پر بھی، بلکہ سارے پاکستان اور بیرون پاکستان میں بھی۔ پھر خبر آئی کہ’’ صدر محمد ایوب خان نے اپنے گائوں ریحانہ (Rehana) جا کر اپنی والدۂ محترمہ سے چھوٹے بھائی (سردار بہادر خان ) کی شکایت کی اورپھر ’’ کونسل مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل سردار بہادر خان نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی ‘‘لیکن…
’’ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟‘‘
…O…
معزز قارئین ! کہانی یہیں ختم نہیں ہُوئی۔ ایک ’’ شب خیز پرندے ‘‘ کو جو ویرانوں میں رہتا ہے اور رات ہی کو نکلتا ہے ’’ ہو ہُو‘‘ کر کے بولتا ہے اور لوگ اُسے بہت منحوس خیال کرتے ہیں ۔ ہندی ،اُردو اور پنجابی میں ’’اُلّو ‘‘ کہتے ہیں جس کی آنکھیں بڑی اور چونچ مُڑی ہُوئی ہوتی ہے ۔مشہور ہے کہ ’’ جس جگہ اُلّو / بُوم بولتا ہے ، وہ بستی اُجڑ جاتی ہے ‘‘۔ اِسی مناسبت سے یہ محاورہ ہے کہ ’’ فلاں جگہ تو اُلّو بول گیا ہے ؟‘‘لیکن ایک پرانے شاعر کا تخلص ’’بُوم‘‘ ہی تھا ۔ جس نے اپنے دَور کے حسینوں سے گِلہ کرتے ہُوئے نہ جانے کس سے کہا تھا کہ …
’’ اِن حسینوں نے اُجاڑی بستیاں !
بُوم ساؔلا مفت میں بدنام ہے ! ‘‘
…O…
معزز قارئین ! علاّمہ اقبالؒ نے 1935ء میں ایک نظم لکھی تھی جس کا نام تھا ’’ خوشامد ‘‘ ۔ نظم کے تین شعر پیش خدمت ہیں …
’’مَیں کار جہاں سے نہیں آگاہ، و لیکن!
ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز!
…O…
کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد!
دستور نیا اور نئے دور کا آغاز!
…O…
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت!
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’’ رات کا شہباؔز‘‘!‘‘
’’مبارک پرندہ ہُما !‘‘
’’ اُلّو / بُوم ‘‘ کے مقابلے میںایک پرندے ’’ ہُما‘‘ کو مبارک سمجھا جاتا ہے۔ جو شخص اُس کے سائے تلے آ جائے وہ صاحب ِ اقبال ہو جاتا ہے ۔ ہُماؔ کسی پرندے کو نہیں ستاتا ۔ اُس کی خوراک ہڈی ہے ۔ صوفی شاعر حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ ((1210ئ۔ 1292ئ) نے ’’بُوم ‘‘ ( اُلّو ) اور ’’ ہُما‘‘ کے بارے بارے میں کہا تھا کہ …
کس نیامد ، بزیر سایۂ بُوم!
در ہمای از جہان شد ، معدوم !
…O…
یعنی ’’ اگر ہُما دُنیا سے ختم بھی ہو جائے تو کوئی بھی اِنسان ، اُلّو کے سائے کے نیچے نہیں آئے گا ۔ علاّمہ اقبالؒ نے ہر مسلمان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …
’’تُو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتداء ہے تیری!‘‘
…O…
اُستاد شاعر انعام اللہ خاں یقینؔ نے اپنے انداز میں کہا کہ…
’’ سریر سلطنت سے ،آستان یار ؔبہتر تھا!
ہمیں ظِل ہُما ؔسے ،سایہ ٔ دیوار بہتر تھا!‘‘
…O…
"Doctor of Birds!"
سابق صدر محمد ایوب خان کا 19 اپریل 1974ء کو انتقال ہُوا تھا اور سردار بہادر خان صاحب کا 31 دسمبر 1975ء کو۔ سردار بہادر خان ڈاکٹر نہیں تھے لیکن جنوری 1970ء کو پیدا ہونے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان شاید ڈاکٹر یا ’’پرندوں کی ڈاکٹر ‘‘ (Doctor of Birds) ہیں ۔ پرندوں ؔ (Birds) میں اُلّو ؔبھی شامل ہے ۔ تبھی تو ڈاکٹر صاحبہ نے ’’ پی ڈی ایم ‘‘ کی 11 سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ہر شاخ پر بیٹھے اُلّو کا اندازہ کر لِیا کہ ’’ ہر شاخ پر اُلّو بیٹھا ہے اور ہر اُلّو جہاں بیٹھا ہے وہ ہر شاخ کو کاٹ بھی رہا ہے؟۔ معزز قارئین ! فارسی زبان کے لفظ ’’ شاخ ‘‘ کے معنی ہیں۔ (ٹہنی ، سینگ ، ٹکڑا، پارہ ، پیشانی اور کندھے سے لے کر انگلیوں تک ہاتھ ) ۔ فارسی کا ایک مقولہ ہے ۔’’ شاخ درجیب کے گذاشتن ‘‘ (یعنی کسی شخص یا حریف کو کسی بات پر اُکسانا / اشتعال دِلانا ) ۔
سوال یہ ہے کہ ’’ کیا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ ’’ پی۔ ڈی ۔ ایم ‘‘ کے سربراہ ’’ مولانا اسلام آباد پسند ‘‘ اور اُن کے ساتھیوں کو واقعی اشتعال دلا رہی ہیں؟۔ معزز قارئین ! 4 نومبر 2019ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ اسلام آباد پسندؔ ، قائدِ انقلاب مُک مُکا ؟‘‘ ۔ اُس میں میرے دوست ’’ شاعر سیاست‘‘ کے یہ شعر بھی شامل کئے تھے …
’’لوگ کرتے ہیں سبھی، کارِ ثوابِ مُک مُکا!
کوئی بھی ، بن سکتا ہے ، عزّت مآب ِ مُک مُکا!
…O…
شاید ہو برپا کبھی تو، انقلابِ ِ مُک مُکا!
مسند ِ زرّیں پہ جا بیٹھیں ، جنابِ مُک مُکا!
…O…
دیکھنا یہ ہے کہ ’’ پی ڈی ایم ‘‘ کے قائدین کے کندھوں پر بیٹھے ہُوئے اُلّو اب کیا کریں گے ؟‘‘۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024