پاکستان نے جوبائیڈن کی حکومت کے ساتھ تعلقات کی’’ حکمت عملی‘‘ تیار کر لی ہے ،جس میں نئے امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان کے ساتھ’’ بہتر اور برابری‘‘ کی سطح پر تعلقات قائم رکھیں گے۔نئے امریکی صدر’’ افغان مفاہمتی عمل‘‘ کے حوالے سے پاکستانی کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے وہ امریکی پالیسی کو جاری رکھیں گے ، افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے نئی امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو برقرار رکھنے کی بھی’’ خواہاں‘‘ ہے۔لیکن ایک بات واضح ہے کہ امریکی صدر کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی سامنے آنے کے بعد ہی پاکستان صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی واضح کرے گا،پاکستان کو اس وقت ایک’’ حکمت عملی ‘‘سے کام لیتے ہوئے امریکہ کے ساتھ’’ برابری‘‘ کی سطح پر بات چیت کرنی چاہیے،خصوصی طور پر کشمیر کے حوالے سے امریکی صدر اور نائب امریکی صدر کو ان کے وعدے یاد دلائے جائیں ،اقوام متحدہ کو بھی ’’دیرینہ تنازعات ‘‘کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کی یاد دہانی کروائی جائے ۔
پاکستان نئی امریکی حکومت کے ساتھ ’’برابری‘‘ کے تعلقات کی پالیسی پر اپنے آئندہ کے تعاون اور بات چیت کے عمل کو جاری رکھے گا۔ نئے امریکی صدر جوبائیڈن پاکستان کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دی گئی قربانیوں اور افغان مفاہمتی عمل میں اس کے کردار سے بخوبی آگاہ ہیں۔ نئی امریکی حکومت کی پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی پالیسی مثبت ہوگی ۔ جوبائیڈن ماضی میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں، اسی لیے پاکستان اور نئی امریکی حکومت کے درمیان تعلقات بہترین ’’ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ کے تحت ہوں گے اور پاکستان کے امریکا کے ساتھ تجارتی ، سفارتی اور دیگر معاملات میں مزیدبہتری آنے کی امید بھی ہے ۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے اس وقت امریکی حکومت سے مختلف امور اور شعبوں میں مربوط تعلقات ہیں اور امید ہے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن ان کی حکومت سے پاکستان کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ’’ وہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ملکر پاک امریکا تعلقات کو فروغ دینے کا منتظر ہیں۔انھوں نے جو بائیڈن کو امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاک امریکا تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ امریکا کے ساتھ تجارت، معیشت، موسمیاتی تبدیلی کو روکنے، عوامی صحت بہتر بنانے، بدعنوانی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن کے قیام کے لیے بھی امریکہ کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ بائیڈن انتظامیہ کا چین کے حوالے سے بھی موقف تبدیل ہوچکا ہے اور اب ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ چینی رویئے کو تبدیل کرنے اور معتدل بنانے کیلئے سفارتی روابط اور معاشی چھوٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کی دہائیوں پرانی حکمت عملی کارآمد بنائی جائے ۔ ٹرمپ انتظامیہ نے2018کی قومی دفاعی حکمت عملی میں چین کو ایک ’’تزویراتی حریف‘‘ قرار دینے اور ہم خیال ممالک جیسا کہ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ہمراہ چینی آزمائش سے نمٹنے کیلئے ایک انڈو پیسیفک حکمت عملی ترتیب دینے پر راغب کیا۔ بائیڈن کے زیر حکومت یہ امریکی سوچ اگرچہ ظاہری طور پر محسوس نہ بھی ہو تو بھی جاری رہنے کا امکان نہیں ہے،جہاں تک بھارت کو درپیش آزمائشوں کا تعلق ہے تو مودی حکومت کی کشمیر کے حوالے سے سوچ یا شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے بائیڈن ۔ ہیرس انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ سختی کے پیش نظر بھارت میں سراسیمگی پائی جا رہی ہے ۔ پاکستان کو اس کا فائدہ اٹھا نا چاہیے اور بائیڈن کو باور کرایا جائے کہ وہ کشمیر یوں کی تکالیف کا ازالہ کریں ۔
’’سیاسی کشمکش‘‘
حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان ’’سیاسی کشمکش‘‘ میں ہر گزرتے دن تیزی آرہی ہے۔ پی ڈی ایم اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے۔جبکہ وزیر اعظم عمران خان اس مسئلے کو بہت آسان لے رہے ہیں ،حالانکہ وزیرا عظم ہونے کے ’’ناطے ‘‘انھیں اس شورش کا نوٹس لینا چاہیے،ہر’’ خاص وعام‘‘ کو ملک سیاسی ’’عدم استحکام ‘‘کی جانب بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے ،جس کے رد عمل کے طور پر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو متنبہ بھی کیا ہے۔جب بھی وزیر اعظم کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن کہتی ہے’’ کہ وہ گھبرا گئے ہیں‘‘ ۔حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذآرائی ’’ملک وقوم‘‘ کے مفاد میں قطعی ٹھیک نہیں ہے،اس سے عام آدمی کے مسائل حل ہو رہے ہیں نہ اسے کسی قسم کا کوئی ریلیف مل رہا ہے ،اس وقت عوام غربت مہنگائی کی’’ چکی کے دو پاٹوں‘‘ میں پس رہے ہیں ،لیکن انھیں ریلیف فراہم کرنے والا کوئی نظر نہیں آرہا ،حکومت اگر عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے، تو اپوزیشن کے جلسے جلوس بے معنی ہو جائیں ، حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اپوزیشن متحد اور موثر نہ ہونے پائے۔لیکن یہاں حکومت پوری اپوزیشن کو اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔اس وقت ضروریات زندگی کی فراہمی کو آسان بنانے کی ضرورت ہے ۔ حکمران تو کسی صورت بھی ’’اشیائے خورد و نوش‘‘ کی قلت اور ’’گرانی‘‘ کو برداشت نہیں کرتے اور ’’طلب و رسد‘‘ کا ایسا مضبوط نظام قائم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی’’ دشواری‘‘ نہ ہو۔ بس یہی چیز حکومت کا پلہ بھاری کردیتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور وقت سے پہلے رخصت کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں لیکن ہمارے حکمران اس سے بے پرواہ ہیں ۔اشیائے خوردو نوش کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی عوام سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں دسمبر 2010کے بعد جنوری 2020میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔ حکمرانوں کے پاس زبانی کلامی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ معیشت سکڑ گئی ہے۔ کاروبار تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ 18ماہ میں ملکی پیدوار میں خاصی کمی ہو چکی ہے۔ ایک سال کے دوران بینکوں کے نادہندہ قرضے 774ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔ حکومت نے جن ترقیاتی اسکیموں کے لیے 701ارب روپے مختص کیے تھے، ان میں سے اب تک 188ارب ہی خرچ ہو سکے ہیں۔ اگر سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو یہ نہ ہو کہ غریب عوام’’ فاقوں‘‘ پر آ جائیں اور حالات مزید خراب ہو جائیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر چیز چاہے وہ ’’کھانے کی ہو یا اوڑھنے ‘‘کی ، اس پر’’ ٹیکس‘‘ لگایا جا رہا ہے۔ مہنگائی سیلابی ریلے کی طرح عوام کو بہا کر لے جا رہی ہے اور اس میں وہ لوگ ’’ڈوب‘‘ رہے ہیں جن کے تیرنے کا کوئی امکان نہیں۔ موجودہ حکومت کو جلد از جلد اس مہنگائی پر قابو پانا چاہئے تاکہ غریب عوام کا کچھ بھلا ہو سکے اور کئی گھر فاقوں کی لپیٹ میں آنے سے بچ جائی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024