یہ پاکستانی سیاست کی خوش قسمتی ہے کہ اس میں بلاول بھٹو جیسے لوگ شامل ہیں۔ ماشاء اللہ نوجوان ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ پیدائشی اور خاندانی طور پر سیاستدان ہیں لیکن بھٹو نہ ہونے کے باوجود بھی بھٹو ہیں چونکہ پاکستانی سیاست میں بھٹو ایک بڑا نام ہے۔ اس لئے انکی والدہ محترمہ نے بھی زرداری کی بجائے بھٹو ہونا پسند کیا جو ملکی روایات کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح عزیزم بلاول نے بھی بھٹو بننا زیادہ پسند کیا ہے۔ جیسے کسی دور میں کچھ خاص نام کسی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے اسی طرح بھٹو نام بھی موجودہ دور کی سیاست میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ بھٹو خاندان کے اصل وارث محترمہ فاطمہ بھٹو اور اسکے بہن بھائی ہیں۔ بہرحال یہ ان کا خاندانی مسئلہ ہے وہ خود ہی اس سے نبٹیں گے لیکن سیاست میں اب یہ روایت بنتی ہوئی نظر آتی ہے۔ محترمہ مریم صفدر بھی مریم نواز بن چکی ہیں۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ ایک غلط روایت ہے۔ اگر ان میں واقعی قومی خدمت کا جذبہ موجود ہے تو اپنی شناخت سے قوم کے سامنے آئیںکسی اور کے لباس میں دھوکہ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال ہماری طرف سے دعا ہے کہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور قوم ان کی کارکردگی سے مستفید ہو۔آمین
نئی نسل کے ہمیشہ نئے دعوے اور نئے تقاضے ہوتے ہیں۔ شاید ہر دور کی جمہوریت بھی علیحدہ ہوتی ہے۔ آجکل عزیزم بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے ہر جلسہ میں گلا پھاڑ پھاڑ کر عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ حقیقی جمہوریت لائیں گے۔حالانکہ وہ خود جمہوریت کی پیداوار ہی نہیں اور نہ ہی اب تک قومی سیاست میں انکی کوئی کارکردگی ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ عزیزم کے ہاتھ میں کہیں سے حقیقی جمہوریت آگئی ہے جو انہوں نے تالے میں بند کرکے عوام سے چھپا رکھی ہے۔ اب جونہی موجودہ حکومت گھر جائیگی تو عزیزم حقیقی جمہوریت کو عوام میں کھلا چھوڑ دینگے جس سے ملک میں انقلاب آجائیگا۔ ملک میں یکا یک دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائینگی اور عوام خوشحالی سے جھومنے لگیں گے۔ ماشاء اللہ سوچ کر ہی خوشی سے دماغ میں مستی چھانے لگتی ہے۔ کیا دور ہوگا جب پاکستان کا قرضہ اتر جائیگا۔ معیشت مستحکم ہوگی۔ خزانہ ڈالروں سے بھرا ہوگا۔ روپیہ ڈالر سے مہنگا ہوگا۔ سبزیاں، فروٹ اور ضروریات زندگی عام اور سستی ہوں گی۔ ادارے اپنا اپنا کام کریں گے۔ رشوت اور سفارش کا کلچر دفن ہو جائیگا۔ عدالتیں انصاف کی علمبردار ہونگی۔ ہر شخص کو انصاف اسکے دروازے پر ملے گا۔ پولیس اور ریونیو والے عوام کے خادم بن جائیں گے۔ ہر طرف امن اور چین ہی چین ہوگا۔ ملک میں جدید ریسرچ کے سنٹرز قائم ہوجائینگے۔ ہر چیز ملک کے اندر تیار ہوگی۔ ہمارے عوام کو مزدری کیلئے باہر کسی ملک نہیں جانا پڑیگا بلکہ باہر سے لوگ یہاں آئینگے۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائیگا۔ اردگرد خصوصاً بھارت سے بھی لوگ روز گار کیلئے پاکستان آئینگے۔ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کی مثال دی جائیگی۔ گرین پاسپورٹ کی دنیا میں بہت عزت ہوگی۔ ہمارے شہر صاف ستھرے اور اعلیٰ ذوق کا نمونہ ہونگے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ صاف پانی ہر گھر میں میسر ہوگا۔ واہ کیا عظیم ملک ہوگا پاکستان۔ ابھی میں پھولوں والے باغ میں ٹہل رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔ دل سے آواز آئی۔ ایں خیال است و محال است و محال است۔ ذہن میں ایک ڈیپریشن سا طاری ہوا تو وطن عزیز کی جمہوری تاریخ کسی فلم کی طرح میرے ذہن میں چلنے لگی۔ یہ تاریخ ذو الفقار علی بھٹو (مرحوم) اور محترمہ بے نظیر شہید پر آکر رک گئی۔ دل نے کہا کہ عزیزم بلاول کی رول ماڈل تو یہی دو شخصیات ہیں۔ بلاول کی اصل جمہوریت ان سے بہتر تو نہیں ہوگی تو میں نے ان دونوں شخصیات کی جمہوریت اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرحومہ نصرت بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا ’’بھٹو خاندان تو پیدا ہی حکمرانی کیلئے ہواہے ‘‘ آج ان کی بات درست نظر آتی ہے کیونکہ بھٹو خاندان عرصہ دراز سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر حکمرانی کر رہا ہے۔ مرحوم بھٹو صاحب اپنی تعلیم مکمل کرنے کے فوری بعد پاکستان کی سیاست اور اقتدار سے منسلک ہوئے اور آخر تک اقتدار میں رہے۔ اقتدار ہی کی وجہ سے افسوسناک انجام کو پہنچے۔ محترم بھٹو صاحب نے پاکستان کا اقتدار اس وقت سنبھالا جب ملک دو ٹکڑے ہو چکا تھا۔ 93ہزار پاکستانی ہمارے ازلی دشمن بھارت کی قید میں جا چکے تھے۔ قوم بہت زیادہ مایوسی کا شکار تھی۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024