پاکستان اس وقت معاشی جمود اور افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی کیفیت کا شکار ہے۔ پاکستان میں معاشی میدان میں تحقیقی ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس‘‘ کے اندازے کیمطابق ملک میں کورونا وائرس کے باعث خدشہ ہے کہ رواں سال ایک کروڑ 90لاکھ کے قریب لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ ماہرین معاشیات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 40برس کے دوران ایسے برے حالات نہیں دیکھے گئے تھے۔ ظاہر ہے مہنگائی کی وجہ سے اخراجات بڑھ گئے ہیں جبکہ آمدنی قلیل ہو گئی ہے۔ اس بد ترین معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے نیز معاشرے کو بے روزگاری کے نتیجے میں جرائم سے بچانے کیلئے مرد و عورت دونوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے خواتین کی شمولیت اور شراکت کا خواب اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ پاکستان!۔ خواتین کی سماجی جرأت کو مدِنظر رکھتے ہوئے قائدِاعظم نے 25مارچ 1940ء کو جناح اسلامیہ کالج برائے خواتین میں تاریخ ساز جملے ادا کیے۔ ’’دنیا میں دو طاقتیں ہیں۔ ایک کی نمائندگی تلوار سے اور دوسری کی قلم سے۔ دونوں کے مابین زبردست مقابلہ اور دشمنی ہے۔ دونوں سے مضبوط ایک تیسری طاقت ہے۔ وہ ’’عورت‘‘ ہے۔‘‘ ہمارے ہاں ایک ثقافتی زاویہء نظر ہے جس کی رو سے خواتین سنجیدہ بنیادوں پر بزنس کو فوقیت دینے کی بجائے زیادہ تر فیشن، سلائی، کوکنگ، حقوقِ نسواں سے جڑے مسائل میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ بدقسمتی سے رسائد و جرائد، ٹی وی پروگرامز میں بھی انہی موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مخصوص جانبداری کی عینک لگانے والوں نے یہ تاثر عام کر دیا ہے کہ خواتین کو پاکستانی معاشرے میں کاروباری لحاظ سے بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے اور انہی کی بدولت خواتین بزنس میں لوہا نہیں منوا سکتیں، گھریلو و خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ خواتین کے کاروبار میں آگے آنے والی اوّلین رکاوٹ شمار کیا جاتا ہے۔ اسکے برعکس اسلامک کلچر و تہذیب وتمدن کے آثار سے ہمیں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی سیرت بطور رول ماڈل ملتی ہے۔ سیدہؓ نے اس دور میں عرب کی امپورٹ ایکسپورٹ بزنس کمیونٹی میں زبردست انقلاب برپا کر دیا جہاں بیٹی ہونا ہی جُرم تھا۔ حضرت خدیجہؓ نے تبلیغی و گھریلو ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھاتے ہوئے بزنس ایڈمنسٹریشن کی بہترین مثال قائم کی۔ حضرت خدیجہؓ مینیوفیکچرنگ کوالٹی کی کراس چیکنگ کرتیں جبکہ سامانِ تجارت کی برانڈ پروموشن کیلئے دوسرے قبائل و علاقوں میں غلام میسرہ کو بزنس مینجمنٹ کی ٹریننگ سے روشناس کروایا۔ 1600 سال بعد کچھ ایسا ہی طریقہ کار ای کامرس کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یعنی بزنس میں دلچسپی لینے والی خواتین پاکستان میں رہتے ہوئے دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود اپنے کلائنٹ کیلئے کام کر سکتی ہیں اور انہیں جسمانی طور پر کسی دفتر جانے کی ضرورت نہیں وہ ورچوئل (یعنی عدم موجودگی میں کمپیوٹر کے ذریعے) بزنس کو فروغ دے سکتی ہیں۔ ای کامرس کی مدد سے جن خواتین کو اپنی کاروباری شناخت کے لیے مشکلات کا سامنا رہا وہ اب ایک کلک پر سب کی دسترس میں ہوگا۔ ای کامرس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں دھوکہ دہی کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ٹرانزیکشنز ایک ہی طریقہ کار اور ریکارڈ کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بزنس کو پروان چڑھانے کیلئے لوگوں کو بتانا پڑتا تھا کہ یہ کاروبار فلاں لوکیشن پر ہے اور اس میں کیا کیا دستیاب ہے۔ اس مقصد کیلئے اشتہارات وپمفلٹس تقسیم ہوتے تھے بالکل اسی طرح آن لائن ای کامرس کی ویب سائٹ کھول کر دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی و مارکیٹنگ ہو سکتی ہے۔ خواتین گھر بیٹھے مناسب سی انویسٹمنٹ کر کے کئی کام کر سکتی ہیں جیسا کہ فیبرک ڈیزائننگ، گھر میں ہی جنرل سٹور، کچن گارڈنگ، کمپوزنگ، ڈیجیٹل سکل سے فری لانسنگ، بیکنگ، دستکاری، ٹیوشن، ڈے کیئر سنٹر، کیٹرنگ، ہینڈی کرافٹ وغیرہ کے ذریعے باعزت طریقے سے ہزاروں روپے کمانے کے ساتھ ساتھ خاندان کو بھی معاشی لحاظ سے مستحکم کر سکتی ہیں مگر اس کیلئے مؤثر پلیٹ فارم کی ضرورت وغیرہ ہوگی۔ اسی سلسلے میں ثاقب اظہر Enablers کے CEOجن کی ملاقات صدرِ مملکت عارف علوی سے ای کامرس سے غربت کے خاتمے کے ضمن میں ہو چکی ہے انکی شہرئہ آفاق کتاب ’’Passive Income‘‘ جو کہ ای کامرس پر لکھی گئی ہے اس میں وہ بتاتے ہیں کہ ہنر مند افراد کی تربیت کس جامع انداز سے کی جائے، گھر بیٹھے کس طرح ملکی معیشت کو بہتر کر سکتے ہیں۔ای کامرس کے سوفیصدی ثمرات کیلئے حکومتِ وقت کو طے کرنا ہوگا کہ وہ اس پر ایکشن پلان ترتیب دے اور ثاقب اظہر و دیگرانکی حوصلہ افزائی کی جائے جو پاکستان سے غربت وبیروزگاری کے خاتمے کیلئے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت خواتین کی کاروباری شراکت کیلئے بینکوں کی مسدود راہوں کو ہموار کرے، چیمبر آف کامرس، ایف پی سی سی آئی، سیمیڈا کے زیر انتظام خواتین کیلئے ای کامرس آگاہی سیمینار ترتیب دئیے جائیں اور نتیجتاً وہ دن دور نہیں جب پاکستان ای کامرس کا حب ہوگا۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024