سیاست،NRO ، چور چور، میں اُن کو رلائوں گا اور چھوڑوں گا نہیں، آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لوں گا، فلاں ڈاکو ہے، فلاں کو چپڑاسی بھی نہ رکھوں، سائیکل کا استعمال ہو گا، ریونیو اکٹھا ہو گا، مہنگائی کنٹرول کی جائے گی، لاکھوں مکان دئیے جائیں گے، کروڑوں نوکریاں دیں گے، کراچی سمندر سے تیل نکل آیا ہے، PDM کی تحریک بیٹھ گئی ہے، ریاست مدینہ بنے گی، پھر کبھی چینی نظام بہتر ہے، کبھی امریکی نظام اچھا ہے، کبھی ملائیشیا کی پالیسیوں سے اتفاق ہے، یونیورسل ہیلتھ کیئر کی طرح صحت کارڈ ایشو ہو گئے ہیں۔ یہ سب شور شرابہ سن کر بھوک سے نڈھال، کسمپرسی، مہنگائی سے عاجز اور نوکریوں کی تلاش والے بے روزگار لوگ اور عوام در بدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ کوئی اُن کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ کرپشن ہے کہ تھمتی نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین جن کے ہاتھ میں ذرا سا بھی اختیار ہے انہوں نے مال پانی بنانے کے لئے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کیا یہی تبدیلی ہے۔ اب تو بے بسی کا یہ عالم ہے کہ مہنگائی کے طوفان کو یہ کہہ کر خود کو حکومتی اکابرین بری الذمہ قرار دے رہے ہیں کہ یہ سب کچھ مافیا کر رہا ہے۔ ایک ہی رات میں وافر پٹرول ہوتے ہوئے بھی پٹرول پمپ بند کر کے 25 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت بڑھائی گئی۔ پچھلے سات ماہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے پٹرول کی قیمت میں34 روپے اضافہ کیا گیا۔ 110 روپے بکنے والی چینی کو کنٹرول کرکے 80 روپے پر لایا گیا۔ حکومتی اکابرین کو مبارکبادیں شاباشیں دی گئیں اور آٹھ دن بعد وہ پھر وہیں چلی گئی ہے۔ کیا یہ کنٹرول ہے۔ گوشت، سبزی، انڈے اور پھل اب عوام دیکھ سکتے ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ایک وقت تھا کہ جب کہا جاتا تھا کہ وڈیرے دیہاتی علاقوں میں سکولوں پر قبضہ کر کے مویشی باندھ دیتے ہیں اور اب تو سارا نظام ہی پرائیویٹ کر دیا گیا ہے۔ غریب کا بچہ جتنا مرضی ہونہار اور قابل ہو لیکن اونچی فیس اور مہنگائی کی وجہ سے اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتا۔ جس ملک کا وزیر تعلیم مہینے کے 32 دن بتاتا ہو اور دوسرا وزیر اربوں کی فگر کو ہزاروں میں اور ہزاروں کی فگر کو اربوں میں بتاتا ہو، وہاں تعلیم کا کیا معیار ہے یہ آپ کو پتہ ہے۔مانا عمران خان قومی ہیرو ہیں اور ایماندار بھی ہیں لیکن نیچے کیا ہو رہا ہے شاید اُن کے علم میں لایا ہی نہیں جاتا۔ شہنشاہِ ایران نے اقتدار سے سبکدوشی کے بعد کہا تھا کہ مجھے میرے ساتھیوں نے عوامی معاملات کے بارے میں اندھیرے میں رکھا۔
میڈیا انڈسٹری گئی، صنعتی پیداوار کے اخراجات بڑھے اور اُنکی پیداواری صلاحیت کا تسلسل ٹوٹا، درجنوں محکموں کے لوگوں کی نوکریاں ختم کر دی گئیں۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت ایڈہاک ازم کی بنیادوں پر چلائی جا رہی ہے۔ اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ نہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاسکی۔ الزام ہے کہ جو مرضی منہ اُٹھا کر لگا دیں۔ نہ 35 پنکچروں کا ثبوت، نہ دشمن ملک کے ساتھ حزبِ اختلاف کے خلاف ثبوت، قبضے تڑوانے کیلئے افسروں کی پے در پے تبدیلیاں، سپورٹس مین وزیراعظم کے دور میں سپورٹس کا بھیانک انجام، گندم کبھی اِن اور کبھی آئوٹ، ایل این جی کی انتہائی مہنگے داموں خرید، قرضوں میں بے پناہ اضافہ۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر پارٹی کے پرانے اور مخلص کارکنوں کو عوام کی خدمت کا موقع دیا جاتا۔ کیونکہ وزیراعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے خود ہی کہا تھا کہ جو حکومت مہنگائی لائے وہ چور ہوتی ہے۔موجودہ حکومت کا اقتدار میں آنے سے پہلے کا ہروعدہ کرپشن، دہشت گردی، اخراجات میں کمی، سرکاری واجبات کی وصولی 100 دن میں ہوجائے گی۔ اس وعدے کا وہی حشر ہوا جو جنرل ضیاء نے 90 دنوں کا کیا تھا۔یوں لگتا ہے کہ کوئی چیز کنٹرول میں نہیں۔ ملک 20 گھنٹے اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ یہ کیسے ہوا پتہ ہی نہیں۔ شہر اقتدار میں نوجوان اسامہ ستی کو گولیوں سے بھون دینا یہ سب اندھیر نگری نہیں تو اور کیا ہے۔دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے فرصت نہیں ہے۔ ان حالات میں ملک کیا ترقی کرے گا۔بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کے کیس میں دن بدن اضافہ آخر کسی چیز کا تقاضا تو کر رہا ہے۔ شہروں میں ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت نہ دے کر لوگوں کو ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ سائیکل پر چڑھ جاتے تو شاید ساری قوم کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو جاتا اور امیر غریب کا تفاوت دکھائی نہ دیتا۔ اس طرح لوگوں کی شوگر، بلڈپریشر کنٹرول ہونے کے علاوہ توندیں بھی کم ہو جاتیں۔ لیکن ایسے نعرے تو لیڈر لوگوں کو بہکانے کے لئے لگاتے ہیں۔ مگر ایک کام انہوں نے ٹھیک کیا ہے کہ روز روز کی بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور تنگدستی کے پیش نظر محتاج خانوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ شہروں میں لوکل ہیلی کاپٹر سروس چلا کر حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ 55 روپے فی کلومیٹر کا خرچہ کوئی اتنا بوجھل دکھائی نہیں دیتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024