پاکستان میں ہر دوسرا شخص نظام سے تنگ، حکمرانوں سے نالاں اور مشکل زندگی کا عادی ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود زندگی کی گاڑی مجبوری، بے حسی یا بے بسی میں چلائے جا رہا ہے۔ پاکستانی دنیا کے ان باصلاحیت افراد میں شامل ہوتے ہیں جو اپنے ملک سے زیادہ بیرون ملک کامیاب ہوتے اور نام کماتے ہیں۔ بیرونی دنیا ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی ہے اور اپنے ملک میں انہیں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ غیر ممالک میں پاکستانیوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ کمی صلاحیت میں نہیں خرابی نظام میں ہے جو اہل لوگوں کو سامنے آنے، آگے بڑھنے اور پرفارم کرنے کا موقع نہیں دیتا۔ اب نظام ٹھیک کرنا کسی کلرک یا سیکیورٹی گارڈ کی ذمہ داری تو نہیں ہے۔ نظام ٹھیک کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت اور ماضی کی حکومتیں اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔ وفاقی و صوبائی سطح پر انصاف پر مبنی فیصلے نہ کرنے اور اہم عہدوں پر میرٹ کے بجائے پسند نا پسند، ذات برادریوں اور تعلقات کی بنیاد پر افسران کی تعیناتی نے انصاف کا گلا گھونٹا ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اسکی بہت تازہ تازہ اور چھوٹی سی مثال آٹے کا بحران ہے۔ اچھے افسران ہوں، قابل وزراء ہوں، قابل، محنتی اور ایماندار افراد پر مشتمل ٹیم ہو تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک زرعی ملک جس کی پہچان اور خاصیت ہی اس کی زراعت ہے اسے گندم باہر سے منگوانا پڑے۔ یہ نااہلی ہے اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی لفظ تہذیب کے دائرے میں رہ کر استعمال کیا جا سکتا ہو تو زیادتی نہیں ہو گی۔ پس ثابت ہوا کہ حکمرانوں کی نااہلی سے ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جن کا تصور بھی محال ہوتا ہے۔
اب عوام کی بات کریں خوشحال لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب بے شعور ہیں، انہیں کوئی عقل نہیں ہے، کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ یہ فکر سے عاری ہیں شعور نہیں رکھتے۔ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھے اس عوام کو کسی نے فکر اور سوچ کے قابل چھوڑا ہے۔ انہیں سمجھ بوجھ اور سوچنے کا وقت ملتا ہے۔ نہ پہننے کو کپڑا، نہ کھانے کو روٹی، نہ پینے کو پانی، نہ بیمار کے پاس دوائی، نہ بچوں کے پاس تعلیم، نہ والدین کی خدمت کے وسائل، نہ بجلی نہ گیس اور نہ آٹا، نہ سستی سبزیاں، نہ بچوں کے لیے دودھ، نہ کھانے کو پھل۔ جب زندگی میں کوئی آسائش ہی نہ ہو ہر وقت روٹی کی فکر میں اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام میں وقت گذرے تو کوئی سوچ و فکر نہیں ہوتی کوئی شعور نہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی عوام کو نظام بدلنے کا موقع ملتا ہے انہوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اب پس رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں ایسے نظر آتا ہے اتنا بڑا ملک ہو، اتنی آبادی ہو ایٹمی طاقت ہو اور وہاں اتنے حالات خراب ہوں۔ یہ سارا کیا دھرا اپنوں کا ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں نے ملک لوٹا، ادارے تباہ کیے، ملک کو قرضوں میں جکڑ دیا، مال دولت بنایا وہی اٹھ کر کہتے ہیں کہ عوام کو شعور نہیں ہے جن باشعور افراد اور طبقے کو طاقت ملی اقتدار اور اختیار ملا حساب تو ان سے لینا چاہیے کہ انہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے بہتری کے لیے کتنا کام کیا ہے یا پھر صرف اپنی جائیدادیں بنائی ہیں اور بچوں کی بیرون ملک تعلیم کا بندوبست کیا ہے اور کرپشن کے نت نئے طریقے نکالے ہیں۔ عوام کو مورد الزام ٹھہرانا ایک حد تک درست ہے باقی ساری تباہی تین فیصد طبقے کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔وہ تین فیصد جسے اشیاء خودونوش کی قیمتوں میں اضافے یا کمی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہی طبقہ اٹھ کر وسائل اور بنیادی ضروریات سے محروم عوام کو بے حس ہونے کے طعنے دیتا ہے۔ جس دن بے حس کی حس جاگ گئی اس دن ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ میرٹ کا بول بالا ہو گا، انصاف ہو گا، وسائل کی یکساں تقسیم کا فارمولا ہو گا، سہولیات دستیاب ہوں گی لیکن اس کے لیے نجانے کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔
ہمارے عوام بیک وقت لاچار، بے بس، بے حس و مجبور اور بہادر ہیں۔ بے بسی کے باوجود نہتے ہوتے ہوئے بہادری کے ساتھ وہ تمام مصائب کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ دفاع وطن کے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ دنیا کو جنگ سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بھوکے ہیں لیکن مسکراتے ہیں۔بے روزگار ہیں لیکن خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں یہ خوبیاں کہیں کہیں ہی نظر ائیں گی۔
آٹا چینی کا بحران ہے، پھر پتہ نہیں دالوں اور سبزیوں کا بحران آ جائے لیکن حکومت کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سب مارکیٹ میکنزم کی وجہ سے ہوا ہے تو اس میکنزم کو ٹھیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ زراعت کے شعبوں میں صوبوں کے معاملات کہ خود نگرانی کریں اور فیصلے کریں یہ صورت حال خطرناک ہے ان کی حکومت کے صوبے ڈیلیور کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ابھی سے لکھ لیں یہی حالات رہے، کام کرنے کا انداز یہی رہا، سطحی فیصلے ہوئے تو رمضان المبارک میں حکومت کا جو حال ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے لیکن جو حال عوام کا ہو گا وہ کبھی نہیں ہوا ہو گا۔ اس نہتی عوام پر رحم کریں، اسکی بے بسی کا مذاق نہ اڑائیں انہیں باشعور بنانا چاہتے ہیں تو انہیں معاشی تفکرات سے نجات دلائیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024