ریاستِ مدینہ کا معاشی نظام

بنی نوع انسان کی زیادہ تر پریشانیوں کا تعلق معیشت سے ہے کیونکہ رائج الوقت نظام ہائے معیشت کی بنیاد سود اور استحصال پر ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ محض سیاسی رہنما نہیں بلکہ ایک مدبر تھے اور قومی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ یکم جولائی1948ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ان کا خطاب قابل مطالعہ ہے۔ جب بنک کے اولین گورنر زاہد حسین نے اپنی تقریر میں کہا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایک ’’مجلس تحقیق‘‘ تشکیل دی ہے تاکہ پاکستان کے معاشی نظام کے رہنما اصولوں کا تعین کیا جاسکے تو اپنے صدارتی خطاب میں قائداعظمؒ نے اس پر کچھ اس طرح اظہار خیال کیا: ’’میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلس تحقیق‘‘ بنک کاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع و اختیار کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے لاینحل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اُس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے جو مغرب کی وجہ سے دنیا کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسرمغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پُرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانی پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کرکے گویا ہم مسلمانوں کی حیثیت میں اپنا فرض انجام دیں گے۔ انسانیت کو سچے اور صحیح امن کا پیغام دیں گے کہ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ کی ہولناکی سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوش حالی کا امین و محافظ ہوسکتا ہے۔‘‘
درحقیقت آپ پاکستان میں ایک ایسا نظام حکومت تشکیل دینا چاہتے تھے جو حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ حکومت کی خوبیوں کا حامل ہو۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فکر و عمل پر حضور پاکؐ کے اسوۂ حسنہ کی گہری چھاپ تھی اور آپ پاکستان کو حضور اقدسﷺ کاروحانی فیضان سمجھتے تھے۔ اس لئے آپ کی خواہش تھی کہ اس مملکت کے نظام ہائے سیاست‘ معیشت اور معاشرت دین اسلام کے احکامات و تعلیمات پر استوار کئے جائیں۔صد افسوس! ہم ان کے تصورات کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور ابھی تک نت نئے تجربات میں مصروف ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان وطن عزیز کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور بار بار اس عزم کا اعادہ بھی کررہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایسی کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کا عنوان ’’7th Century - MADINA ECONOMICS....The First Economic System of the Mankindہے۔یہ کتاب ریاست مدینہ کے معاشی پہلو پر سیر حاصل روشنی ڈالتی ہے اور اتنے مستند تاریخی حوالہ جات سے مزین ہے کہ ہر وہ شخص جو قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کو بروئے کار آتا دیکھنے کا آرزو مند ہے‘ اسے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ چونکہ اول روز سے پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کا داعی ہے‘ لہٰذااس کتاب کے مصنف محمد منیر احمد کو اپنے تھنک ٹینک ’’ایوانِ قائداعظمؒ فورم‘‘ کی آٹھویں نشست میں مدعو اور اہل علم و دانش نیز نسل نو کے نمائندوں کو شریک محفل کیا۔ ایوانِ قائداعظمؒ جوہر ٹائون لاہور میں منعقدہ اس نشست کا موضوع ’’ریاست مدینہ کا معاشی نظام‘‘تھا جس کی صدارت
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کی جبکہ نظامت کے فرائض فورم کی کنوینر بیگم مہناز رفیع نے انجام دیے۔ اس موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید‘ کرنل (ر) مظہر مقصودراٹھور‘ قیوم نظامی‘ اسد اعجاز‘ بیگم صفیہ اسحق اور خالد اللہ خان بھی موجود تھے۔ محمد منیر احمد معاشی امور کے معروف محقق ہیں اور 30سال سے زائد عرصہ تک سٹیٹ بنک آف پاکستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ نے ترقی یافتہ دنیا کے نظام ہائے معیشت اور دین اسلام کے پیش کردہ معاشی نظریات کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے۔ اُنہوں نے ملٹی میڈیا کی مدد سے پریزنٹیشن دی اور کہا کہ اگر گوگل پر سرچ کریں تو اس کے مطابق دنیا میں صرف دوہی معاشی نظام ہیں: سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت۔ یہ ہماری غفلت ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دے رہے اور ریاستِ مدینہ کے معاشی نظام کے بارے عوام الناس اور مغربی دنیا کو آگاہ نہیں کررہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ مغربی ماہرین معاشیات کے نزدیک اسلام کے پاس کوئی معاشی نظام نہیں ہے مگر 2003ء میں Idahoیونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر ایس ایم غضنفر‘ 2013ء میں ملائشیا کے ڈاکٹر مراد سیزاکا اور 2014ء میں جرمن سکالر بینیڈکٹ کوہلر نے اسلام کے معاشی نظام پر کتابیں لکھ کر دنیا کو اس کے اوصاف سے روشناس کرایا۔ مؤخر الذکر مصنف نے حضور پاکؐ کو دنیا کے اولین معیشت دان قرار دیا۔ علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری اور نثر میں بھی ایسے معاشی نکات ملتے ہیں جن کی بنیاد اسلام پر ہے۔ محمد منیر احمد کا کہنا تھا کہ جب آپؐ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو سب سے پہلے مسجد اور پھر ایک بہت بڑے خیمے میں اکنامک انٹرپرائزکے طور پر مارکیٹ قائم کی۔ آپؐ نے تجارت پر کوئی ٹیکس عائد نہ کیا۔ آپؐ نے سچے تاجر کا رتبہ شہداء اور صالحین کے برابر قرار دیا۔ ایک بار مدینہ منورہ میں قحط پڑ گیاجس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔تاجر حضرات آپؐ کے پاس تشریف لائے تاکہ آپؐ قیمتوں کا تعین کردیں۔ آپؐ نے قیمتوں کا تعین کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ پر چھوڑ دیا کہ وہاں قیمت کا تعین ہو۔ اسے آج مارکیٹ بیسڈ معیشت Market Based Economyکہتے ہیںجس کا تصور آپؐ نے آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل ہی دے دیا تھا۔ آپؐ نے مارکیٹ سے باہر جا کر خریدوفروخت پر پابندی لگا دی۔ آپؐ نے سود کے لین دین جھوٹ‘لوٹ کھسوٹ اور ملاوٹ جیسی قباحتوں کا قلع قمع کردیا اور اشیاء پیدا کرنے والوں کو مڈل مین کے استحصال سے نجات دلادی۔ محمد منیر احمد نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سال 2020ء کو ’’ریاستِ مدینہ کے معاشی نظام کا سال‘‘ قرار دے اور جس ترتیب سے حضور پاکؐ نے مدینہ المنورہ میں معاشی نظام نافذ کیا تھا‘ اس کی پیروی کرے۔
نشست میں نظریۂ پاکستان فورم سیالکوٹ کے صدر اور معروف کاروباری شخصیت اسد اعجاز نے بھی اپنے کمیونٹی بیسڈ پراجیکٹ کے بارے آگاہ کیا جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت کامیاب اورروز بروز ترقی کررہا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ کی روح یہ ہے کہ جو لوگ خوش حال ہیں‘ وہ کمزور طبقات کو معاشی لحاظ سے اوپر اٹھانے میں کردار ادا کریں۔ الحمدللہ! صرف بیس ہزار روپے سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کا ٹرن اوور اب تین کروڑ روپے سالانہ تک جاپہنچا ہے۔ اس وقت پراجیکٹ کے دفتر میں 20نوجوانوں کو روز گار میسر ہے جبکہ 70دیہی خاندانوں کی آمدن میں اچھا خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔ ہم دیہات سے خالص دودھ اکٹھا کرتے ہیں اور اسے شہر میں فروخت کرکے اس سے حاصل شدہ آمدن کو عام آدمی کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں۔ مستقبل میں اسے سبزیوں‘ پھلوں اور بعدازاں اناج تک وسعت دی جائے گی۔
شاہد رشید نے کہا کہ محمد منیر احمد نے یہ کتاب لکھ کر دراصل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مشن کو آگے بڑھایا ہے اور اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے بہت جلد اس کی باقاعدہ تقریب رونمائی منعقد کی جائے گی۔ نشست کے اختتام پر مصنف نے پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد کو اپنی کتاب پیش کی۔