فیصل وائوڈا کو سزاملنی ہی چاہئے تھی اس کا جرم معمولی نہیں۔ آج کے دور میں سب کے سامنے سچ بول دینا اور پھر ایک ٹی وی کے پروگرام میں سچ اس کھلے انداز میں بے دھڑک بیان کردینا۔ بلاشبہ ایسا جرم ہے جس کی معافی ممکن نہیں۔منافقت کو بے نقاب کرنا ووٹ کو عزت دینے کے نعرے لگانے والے جب زبان سے پھر جائیں خلائی مخلوق کی اصطلاح نکالنے والے جناب نوازشریف اچانک پینترا بدل لیں تو ’’سچ‘‘ کی سر عام رونمائی سے اخلاقیات کا جنازہ تو نکلے گا۔ یہی کچھ بھائی قمر الزماں کائرہ کو بھی بھگتنا پڑا۔ پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے بھی مرقع اخلاق و تہذیب حاجی اصغر کائرہ سے خاندانی مراسم کے سلسلے کبھی کا فراموش کرچکا ہوں لیکن ممریز خان صاحب کی شفقت اور عنایت نے قمرالزماں کائرہ سے تعلق کی نئی جہتیں روشناس کرادی ہیں شریف خاندان کے با ادب کھڑے دونوںاطراف قطار اندر قطار جی حضوری کرتے احباب۔ شرلاک ہولمز کے جاسوسی کردار کی مانند بڑے بھائی جان کے پیچھے شہبازشریف صاحب کی ڈرامائی ’اینٹری‘ اور پراسرار انداز میں ‘آنیاں جانیاں‘، یہ چلتا پھرتا جاسوسی ناول ہے، جو عمران سیریز سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔
فیصل وائوڈا کے منہ کی کنڈی جلدی کھل جاتی ہے۔ دروازہ کھل جائے تو اندر جو نکلتا ہے، وہ باہر والوں کو برداشت نہیں ہوتا۔ فیصل وائوڈا کو لعن طعن کرنے میں مصروف فنکاروں کو توفیق نہ ہوئی کہ سچ بول نہیں سکتے تو کم ازکم سچ سن لینے کی جرأت ہی دکھادیتے۔ اگر سچ سْن لینے کی جرات نہیں تو کم ازکم اس سچ کو توڑ مروڑ کر کسی اور جامے اور پاجامے میں فٹ کرنے کی حماقت کیوں کرتے رہے؟ ارے بھئی سچ پورا سچ ہوتا ہے، اس میں اپنی سہولت کا ’ لْچ‘ نہیں ہوتا۔ سچ پورا نہ بولا جائے تو وہ بھی دراصل ’جھوٹ‘ ہی ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ سچ نہ مسلم لیگ (ن) سْن پائی۔ یہی وجہ ہے کہ وفاشعار سینیٹر پرویز رشید نے بھی شاعری میں مرجانے کی دعا مانگ لی۔ حالانکہ ہم ان کی زندگی کی دعا مانگتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے جس عجلت میں میڈیا کے بدلحاظ رپورٹروں کی پھبتیاں سہتے آگے بڑھ گئے، یہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں۔ کسی شاعر کی مترنم آواز میں سنائی جانے والی غزل کی مانند۔۔ وہ جب چلتے ہیں تو ان کے قدم۔۔ خماربارہ بنکوی کے مدھر مصرعوں کی مانند ہوتے ہیں۔ لیکن اس روز ان کا انداز بتارہا تھا کہ سینیٹر پرویز رشید کو قیادت کی یہ سودے بازی برداشت نہیں ہوئی۔ شاید پہلی بار فیصل وائوڈا کی بات سینیٹر پرویز رشید کو دل سے بہت اچھی لگی ہوگی لیکن وہ اس کی داد دینا بھی چاہے تو دے نہیں سکے گا۔
پہلی بار رانا ثناء اللہ کو بھی فیصل وائوڈا اچھا لگا ہوگا۔ اس نے وہ بات کس بے باکی سے سرمحفل کہہ دی جسے سب چھپا رہے تھے۔ رانا ثناء اللہ ذہین سیاسی کارکن ہے۔ وہ پینترا بدلنے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے خواجہ آصف کی طرح ’’قائد کے حکم‘‘ کی ’چائے میں لسی‘ نہیں ملائی بلکہ سیدھی بات کہی کہ ہمارے کارکن اس پر ناراض ہیں۔ ان سے بات کرنا ہوگی۔
سینیٹر رضاربانی ایک روز پہلے تک پریس کانفرنس کرکے عجیب عجیب قانونی گتھیاں بیان کررہے تھے۔ پیچیدہ آئینی طریقہ کار کی پیش گوئیاں کر رہے تھے۔ پی پی پی کی آئین اور قانون سے وابستگی کی تابناک تاریخ سمجھانے میں ’کھپ‘ رہے تھے لیکن پھر نہ ان کی آئینی وقانونی گتھیاں کہیں دکھائی دیں اور نہ ہی وہ خود ہی کہیں نظرآئے۔ ان سے تو فیصل وائوڈا اچھا نکلا کہ ٹی وی پروگرام میں جاکر اس نے سچ بول دیا۔
دراصل یہ وہ آئینہ تھا جو فیصل وائوڈا نے پوری دنیا کے سامنے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو دکھایا۔ اس آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر برداشت نہیں ہوئی۔ فیصل وائوڈا نے بالکل وہی کام کردیا جو مرزا غالب نے اپنی طرح میں فرمایا تھا…ع
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
غالب کو سچ بولنے کے اثرات کا چونکہ علم تھا، اس لئے انہوں نے اسی کلام میں شاعرانہ انداز میں نصیحت بھی کی ہے …؎
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
موجودہ حالات میں یہ نصیحت ظفراقبال کی طرف سے فیصل وائوڈا کو ہے کہ ’سچ بولا ہے تو اس پر قائم بھی رہو واڈا‘ ورنہ تو جھوٹ بولنے والوں کو ہی ’صاحب کردار‘ ہونے کی نصیحت ہوئی۔
اب واڈا کے خلاف ایک زمانہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔زمانے کے انداز کیسے بدل گئے ہیں، اس ایک واقعہ نے ہمیں خوب سمجھایا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ زمانہ بالکل بھی نہیں بدلا۔ سچ کہنے پر پہلے بھی ایسے ہی سزا ملا کرتی تھی اور آج بھی چلن بدلا نہیں۔ صرف چہرے اور کردار ہی تو بدلے ہیں۔ پہلے بھی سچ بولنے پر لعن طعن ہوتی، برا بھلا کہاجاتا، سولی چڑھاتے، یا پھر زہر کا پیالا پینے کا عذاب جھیلنا پڑتا، آج جدید زمانہ ہے، آج زہر کے پیالے کی جگہ پیمرا کے حکم نامے نے لے لی ہے۔بوٹ سے شروع ہونے والی یہ کہانی اب سوشل میڈیا پر فیصل واڈا کے مختلف انداز میں اڑائے جانے والے تمسخر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ پیمرا نے فوری کارروائی دکھائی۔ فوری دوصفحات کا ایک حکمنامہ صادر ہوا جس میں اینکرپر تمام نزلہ گرا دیاگیا۔ ہر جملے اور لفظ کو اس انداز سے اینٹ کے ساتھ اینٹ کی طرح جوڑا کہ ملبہ اینکر پرہی گرے۔
کہتے ہیں سچ بڑا ہی کڑوا ہوتا ہے۔ جنہوں نے چکھا ہی نہیں انہیں کیا معلوم زہر کی طرح ہوتا ہے یا نیم کی طرح۔ بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں …؎
جھوٹھ آکھاں تے کجھ بچدا اے
سچ آکھیاں بھامبڑ مچدا اے
جی دوہاں گلاں توں جچدا اے
جچ جچ کے جہوا کہندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
جس پایا بھیت قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر دا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لیہندی اے۔
منہ آئی بات نہ رہندی اے
اے شاہ عقل توں آیا کر
سانوں ادب اداب سکھایا کر
میں جھوٹھی نوں سمجھایا کر
جو مورکھ ماہنوں کہندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38