محبت جنگ اور پاکستان
محبت، جنگ اور پاکستان میں کچھ بھی جائز ہے – یہاں پہ اگر خیرات اور صدقے کا رواج ہے تو وہیں چور بازاری ،منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی بھی عروج پہ ہے- ہر کوئی دنوں میں لوٹ مار کرتا بام عروج پہ چمکنا چاہتا ہے جہاں پہ براجمان وہ خیر خیرات کرے تو اس کی معاشرے میں خوب واہ واہ ہو اور وہ شہرتوں میں زندہ و جاوید ہو جائے لیکن کیا اسے رب ذوالجلال کی اس پکڑ پہ بھی یقین ہے جو اس نے ذخیرہ اندوز وں اور منافع خوروں کے لئے تفویض کی ہے – یوں تو کھانے والی اجناس کی ذخیرہ اندوزی حرام قرار دی گئی ہے مگر اسے تو مال و جاہ کی ہوس نے ایسا اندھا کیا ہے کہ اسے حلال وحرام کے فکر سے زیادہ اس دولت کی فکر ہے جس کے حصول میں لگائی گئیں حدود و قیود اس کے لئے بے معنی ہیں- ہماری ایک سابقہ ایم این اے کے ساتھ احتجاج کر نے والے کو حکومت میں آتے ہی اس کی وفاداری کے بدلے میں گوداموں کی ٹھیکیداری عطا ہوئی اور ماشائ اللہ وہ آج تونگری کی مثال بنے وہ حاجی صاحب ہیں کہ جن کا شمار علاقے کے امرائ میں ہوتا ہے – چینی کے کارخانوں کے مالکان کون ہیں سب جانتے ہیں- دھن میں کھیلتے مالکان جب چھوٹے کسانوں کے گنے کے دام سالوں دبائے رکھتے ہیں تو وہ کس کی مدد کر رہے ہیں خدا جانتا ہے- کہتے ہیں کہ ملک میں گندم آج بھی ملکی ضرورت سے زیادہ موجود ہے لیکن سرمایہ کاروں کے گوداموں میں پڑی جہاں وہ مصنوعی قلت کا باعث ہے تو وہیں وہ ملکی غربائ کو فاقوں پہ لے آئی ہے- پچھلے سال جہاں چھوٹے کسانوں کو بتایا گیا تھا کہ گندم اس سال وافر مقدار میں ہوئی ہے اور ملکی گوداموں میں پہلے سے پڑی گندم اتنی مقدار میں ہے کہ اس برآمد کرکے زر مبادلہ کمایا جا سکتاہے – ان برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر کے تناظر میں جہاں کسان کو لائنوں میں لگ کے کم قیمت پہ اپنی گندم فروخت کرنا پڑی وہیں پھر برآمدات کے نام پہ خوب اسمگلنگ بھی ہوئی تھی – افغانستان میں اسمگل ہوتی یہ گندم سب حکام کے سامنے ہوتی ہے – ایک دفعہ اپنی گاڑی پہ پشاور جانے کا اتفاق ہوا واپسی پہ دو صوبوں کے درمیان دریائے اٹک کے پل پہ جس طرح کی چیکنگ تھی میرا نہیں خیال کہ ایک سوئی بھی گزر سکے پھر میں کیسے مان جاؤں کے دو ملکوں کے درمیان سرحد پہ متعین عملہ کی ساز باز کے بغیر یہ اسمگلنگ ہو سکے- اب جب کہ درمیاں سرحد پہ نصب باڑھ بھی موجود ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسمگلنگ ہو یہ تو ملکی ادارے ہی بتا سکتے ہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چینی کی طرح یہ گندم مافیا بھی اپنیرابطوں اور سہولت کاروں کے ہاتھوں محفوظ مال بنا رہا ہے – افغانستان میں ذخیرہ یہ گندم اب واپس درآمد کے نام پہ لائی جائے گی اور خوب ہن برسائے گی – حکومت اپنے تئیں کوشش کر رہی ہے – وزیر اعظم صاحب کے احکامات کے مطابق 20 کلو آٹے کے تھیلے کے دام 790 سے 805 روپے تک مقرر کئے گئے ہیں اور ساتھ ایک نمبر بھی دیا گیا ہے کہ منافع خور کی نشاندہی کی جا سکے لیکن اس کے بعد مہنگا آٹا اب ایسے غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ- حکومت نے شہر کی دکانوں اور آٹا پوائنٹس پہ آٹے کے ٹرک پہنچانے کے انتظامات کئے ہیں لیکن اب وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے کہ ایک طرف شور ہو گا کہ قلت نہیں ہے اور دوسری طرف غریب عوام آٹا حصول میں بے یارو مددگار رلتے نظر آئیں گے- پاسکو کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فلور ملوں کا گندم کی سستی ترسیل یقینی بنائیں لیکن کاغذوں پہ بنی فلور ملز والے گندم لے کے عام مارکیٹ میں اسے فروخت کرتینظر آئیں گے – اس جوڑ توڑ کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پہ ایماندار افسران متحرک ہوں اور صرف اپنے دفاتر سے سب اچھا کی رپورٹ بھیجنے سے پرہیز کریں- نان بائی حضرات سے بھی التماس ہے کہ وہ اسے ملکی ایمرجنسی کا خیال کرتے ہوئے اپنی ضلعی انتظامیہ سے تعاون کرتے ہوئے ان مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنائیں کہ جن سے پیٹ کے ایندھن کا سامان کرنے میں آسانیاں پیدا ہوں- آٹے کی اسمگلنگ کاقلع قمع کیا جائے اور آٹے کی آمد و رفت پہ نظر رکھی جائے- میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اگر پنجاب میں آٹا ہو اور میرے دوسرے صوبے کے لوگ روٹی کو ترسیں – ضرورت کی اس گھڑی میں بہتر یہی ہے کہ سب بھائی بانٹ کھائیں – اگر دوسر یصوبوں کے درمیان آٹے کی ترسیل کا فیصلہ ہو تو یہ حکومتی نمائندوں اور ذمہ دار افسران کے مابین ہو تا کہ یہ آٹا پاکستان عوام کے پاس پہنچے نہ کہ پاکستانی سرمایہ داروں کے گوداموں تک -ایسے میں منافع خوروں کی
آٹے میں ملاوٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جائے تاکہ مہنگے داموں فروخت ہوتا ہوا یہ غیر معیاری اور مضرصحت آٹا کہیں پیٹ بھرتے بھرتے بیماریوں کا سبب نہ بنے- آنے والے دنوں کے لئے اس سال سے سبق سیکھتے ہوئے پاسکو پہ گندم کی خریداری کو شفاف بنایا جائے – نہ گندم کا بار دانہ بکے اور نہ ہی ان بوریوں میں کنکر ریت اور مٹی خریدی جائے – کالی بھیڑیں پکڑی جائیں اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے – حکومتی گوداموں سے آٹے کی چوری کا ملبہ چوہوں کے کھاتوں میں ڈالنے والوں سے پوچھ پرتیت ہواور ہر سال ٹنوں کے حساب سے گندم کھا جانے والے اصل چوہے اپنے بھیانک چہروں کے ساتھ سامنے لائے جائیں- ان زبان دراز چوہوں کو لگام ڈالی جائے اور ان کے دیو ہیکل مافیا زکی بیخ کنی کی جائے جو لوگوں کا خون چوستے ان میں طاقتور بن کے گھومتے ہیں- ملک میں گنے کی خرید جاری ہے کسانوں کو اس کا مناسب معاوضہ دلایا جائے اور آج ہی ان اصلاحات کی داغ بیل ڈالی جائے تا کہ کل آٹے کے بعد ہم چینی کے بحران کا شکار ہوئے پھر دست و گریباں نہ ہوں- محبت اور جنگ میں اگر سب کچھ جائز ہو تو میرے پاکستان میں قانون کی بالا دستی ہو۔