مہنگائی اور بے روزگاری کے آگے بند باندھنے کی ضرورت
وزیر اعظم سے بزنس کمیونٹی اور تاجروں کی ملاقات کا خوشگوار پہلو سامنے آنا ضروری ہے کیونکہ وطن عزیز میں ترقی کامنجمند پہیہ چلنا قوم کے حق میں ہے ۔ ہم سب دعاگو ہیں کہ سرمایہ کاروں ، صنعت کاروں اور تجارت پیشہ حضرات کیلئے ماحول سازگار ہو تاکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے آگے بند باندھا جاسکے اس کئیلے ایوان اقتدار کا سنجیدہ طرز عمل ناگزیر ہے ۔ یہ درست ہے کہ ٹماٹر کے بعد آٹا بحران نے جس طرح عوام کو مخمعہ کاشکار کیا ہے اس سے پناہ مانگنے کو دل کررہا ہے پنجاب حکومت نے راولپنڈی اور مضافات جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے اسلام آباد کے اربن اور دیہی علاقوں میں ٹرکوں کے ذریعے سستے نرخ پر آٹا فروخت کے لیے موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مصنوعی بحران سے آٰنکھیں چرا کر یوں عوام کو آٹا مافیا کے رحم وکرم پر سپرد کر دینا دانش مندی ہے؟ آخر حکومت مافیا کی سرکوبی کے لیے آہنی ہاتھ کیوں استعمال نہیں کرتی ۔وفاقی وزیر شیخ رشید کہتے ہیں کہ نومبر اور دسمبر میں زیادہ روٹیاں کھانے سے آٹا بحران نے جنم لیا جبکہ صوبائی وزیر فیاٖض الحسن چوہان پہلے بحران سے انکاری تھے بعد میں کہنے لگے حکومت مافیا سے نبٹنا
جانتی ہے ؟ سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس وزیر کی بات پر کان دھریں یا مانیں!…گزشتہ روز اسلام آباد کی سیاسی وسماجی شخصیت اسلام آباد چیمبر آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سنیر نائب صدر نوید ملک نے تاجر راہنما ایف پی سی سی آئی کے سابق سینئر نائب صدر اعجاز عباسی کے اعزاز میں خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا جس میں اسلام آباد چیمبر کے سابق صدر عامر وحید. باصر دواد سابق سینئر نائب صدر اشفاق چھٹہ. سیعد بھٹی. جناح سپر کے صدر ملک رب نواز. گلبرگ گرین اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے صدر ملک نجیب کے علاوہ تاجر راہنماوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔نوید ملک باصلاحیت نوجوان تاجر لیڈر ھیں انھوں نے بہت تھوڑے وقت میں سیاسی سماجی حلقوں میں مقام بنایا ھے وہ دوستوں کی خوشیوں میں نہ کہ صرف شریک ھوتے ھیں بلکے شیر بھی کرتے ہیں اسی طرح گذشتہ روز انھوں نے اعجاز عباسی کی سالگرہ کے دن کو سیلیبریٹ کیا ۔تقریب کے شرکائنے بھی میزبان کے دوست پرست جذبات کی تعریف کی مجھے ان کے سیاسی سرپرست ھونے کا اعزاز حاصل ھے میں دل کی گہراہوں سے ان کامیابیوں و کامرانیوں کے لیے دعا گو ھوں۔ اعجاز عباسی میرے دیرینہ دوست ھیں 1980 میں انھوں نے جناح سپر اسلام آباد سے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا وہ طویل عرصے تک صدر و جنرل سیکرٹری رھے ھیں اسی طرح اسلام آباد کی ایک مرکزی تنظیم ٹریڈز یونیٹی کے قیام میں بھی ان کا کلیدی کردار رھا ھے 1985 میں اسلام آباد کے تاجروں نے جب اپنے مطالبات بالخصوص منصفانہ قانون کرایہ کے نفاذ کے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تو اعجازِ عباسی تاجر برادری کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ھوے 1985 کی کامیاب احتجاجی تحریک تھی تاجروں نے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا اج تک اسلام آباد میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی میں اس موقح پر اگر ان تاجر لیدران کا ذکر نہ کروں جنہوں نے تاجروں کے حقوق کے تحفظ اور تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے شب و روز وقف کیے تو نا انصافی ھو گی ان میں نثار عباسی جو کہ آبپارہ کے صدر اور ٹریڈز ایکشن کمیٹی کے ارگنانگ سیکرٹری تھے کے علاوہ ملک زبیر جناح سپر . خالداعوان نیشنل مارکیٹ جہانگیر اختر سپر مارکیٹ چوھدری بشیر احمد میلوڈی. طلعت عباسی سردار الطاف اور بندہ ناچیز قابل ذکر ہیں مجھے یہاں اس بات کا بھی اعتراف ھے کہ طویل جدوجہد کے باوجود تاجروں کا دیرینہ منصفانہ قانون کا مطالبہ اج تک پورا نہیں ھوا موجود حکومت نے بھی اس بات کی یقین دھانی کروا رکھی ھے کہ وہ تاجروں کے اس دیرینہ مطالبے کو پورا کریں گے اللہ کرے کہ یہ اس وعدے پر پورا اتریں بہرحال ھم بات کر رھے تھے اعجاز عباسی کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کی جس کا انعقاد نوید ملک نے کیا تھا اعجاز عباسی بے شمار صلاحیتوںکے مالک ہیں جناح سپر سے اسلام آباد چیمبر کی صدارت اور ایف پی سی سی آئی کی صدارت تک کی کامیابی ان کی خداداد صلاحیتوں کا مظہر ھے تقریب کے شرکاء نے بھی اعجازِ عباسی کی تاجر برادری کے لیے ناقابل فراموش خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا اور موجودہ ملکی حالات اور تاجروں کو درپیش مسائل پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا تاجر راہنماوں کا کہنا تھا حکومتی اور ایف بی آر کی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ھی کاروبار بری طرح متاثر ھوئے ھیں ایسے میں سی ڈی اے کی طرف سے ٹریڈز لائسینس کی فیسوں میں 100 فی اضافہ تاجروں کے لیے تشویش کا باعث ھے بحض دوستوں نے اس بات کا بھی شکوہ کہ موجودہ حکومت تاجروں کو اعتماد میں لیے بخیر اپنے فیصلے مسلط کرتی ھے اور وعدوں سے بھی انحراف کرتی ھے مجھے اس بات کا پوری طرح احساس ھے کہ ملک میں بڑھتی ھوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کم ھوئی جس کی وجہ سے کاروبار متاثر ھوئے ھیں جبکہ حکومت کو
اس بات کا کوئی ادارک نیہں وزیراعظم سے لے کر وزراء تک ھر کوئی اٹھارہ مہینے گزرنے کے باوجود اپنی ناکامیوں کا ذمے دار سابق حکومتوں کو ٹھہر رھا ھے ایک طرف جہاں حکومت غربت بیروزگاری مہنگائی اور مسائل پر قابو پانے میں ناکام ھے دوسری طرف اپوزیشن کے علاوہ اس کے اتحادی بھی اس سے ناخوش ھیں اور وزیر اعظم کو خدا حافظ کہنے کا بہانہ ڈھونڈ رھے ھیں ایسی بے یقینی کی صورتحال میں میں نہیں سمجھتا کہ یہ حکومت مستقبل قریب میں کچھ ڈلیور کرنے میں کامیاب ھو سکے گی