بلوچستان میں بارڈر کراسنگ پوائنٹ کی اہمیت
مکرمی : بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جغرافیائی، تجارتی اور اقتصادی اعتبار سے اس کی اہمیت ان زمینی حقائق سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ ہمارے دو اہم اسلامی برادر ممالک افغانستان اور ایران کے بارڈر اس صوبے سے منسلک ہیںایران کے ساتھ ہمارے تجارتی حجم کا تخمینہ تقریبا ً پانچ ارب ڈالر لگایاجاسکتا ہے جو کہ فی الوقت تقریباً ایک سے دو ارب کے درمیان ہے۔ یعنی اس میں بہتری کے 60 سے80 فیصدامکانات مزیدموجود ہیں۔ یہ ساری تجارت واحد منظور شدہ بارڈر کراسنگ پوائنٹ ـ " تفتان" کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان کراسنگ پوائنٹ کو عام اصطلاح میں بارڈر ٹرمینل کہا جاتا ہے۔۔ایک طرف ایران ہے تو مغرب میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ تجارت کی راہداری چمن سے ہوکر گزرتی ہے۔ چمن کراسنگ بھی باقاعدہ منظور شدہ بارڈر ٹرمینل ہے اور دو طرفہ تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈکی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کی طرح افغانستان کیساتھ بھی ایک تخمینہ کے مطابق تجارت کا حجم 5 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے جو کہ فی الحال محض ڈیڑھ ارب کے قریب ہے ۔بلوچستان ایک زمینی حقیقت ہے اور میرا تو یہ ایمان ہے کہ اگر صرف اس صوبہ کے اندر پوشیدہ و ظاہر خزانوں کو صحیح طورپر بروئے کار لایا جائے تو یہ پورے پاکستان کو بخوبی چلاسکتا ہے۔ کوئٹہ سیف سٹی کا منصوبہ جو کافی عرصہ سے تعطل کا شکار تھا، شروع ہونے والا ہے۔ کوئٹہ کے لئے خصوصی طور پر منگی ڈیم سے فراہمی آب کے ایک منصوبے پر این ایل سی نے کام شروع کردیا ہے۔ کوئٹہ شہر تجارت کے لحاظ سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ بذریعہ N-40 تفتان ایران سے جڑا ہے اور بذریعہ N-25 چمن افغانستان سے جڑا ہے۔ یہ درآمدات و برآمدات چمن اور تفتان سے ہو کرزمینی راستوں سے پورے ملک میں ترسیل کی جاتی ہیں۔ کوئٹہ کی رونقیں بحال ہو چکی ہیں۔ اقتصادی و تجارتی سر گرمیوںکو از سر نو فعال کرنے کیلئے ہمیں اپنی سرحدوں پر موجود بارڈر ٹرمینلز کی استعداد کو بڑھانا ہو گا۔ ہمیں ایک ایسے دور کی طرف بڑھناہو گا جہاں یہ سڑکیں علاقائی اور بین الاقوامی رابطوں کومضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کا ذریعہ بنے ان تمام رابطوں میں بارڈر ٹرمینلز کا کلیدی کردار ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری اور ٹرانزٹ ٹریڈ دونوں کے تناظر میں بلوچستان کی اہمیت اظہرمن الشمس ہے۔تجارت کے ذریعے جتنے روزگار کے مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں، ان کا تناسب سرکاری ملازمتوں سے یقینا بہت زیادہ ہے۔موجودہ حکومت کا پانچ کروڑ ملازمتوںکا خواب ایسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جب صوبائی اور وفاقی سطح پربلوچستان کی محل وقوع اور اس سے جڑی تجارتی راہداریوں سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اورموجودہ بارڈر ٹرمینلز کو جدید سہولیات سے لیس کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام قومی ادارے جو کہ مختلف وزارتوں میں رہ کر اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں، ایک ایسی تنظیمی ڈھانچہ یا اتھارٹی جو کہ نہ صرف آزاد و خودمختار ہو بلکہ فعال و مستعد بھی ہو، میں رہتے ہوئے اس کثیرالجہتی عمل کو تیز و شفاف بنا سکے۔ (ظِل حسن ہاشمی(