سانحہ ساہیوال، مولانا رومؒ اور تھیوری
ساہی وال میں جس بے دردی اور سفاکی کے ساتھ ایک خاندان کے افراد کو ان کے کم سن بچوں کے سامنے قتل کیا گیا اور اس کے بعد جس قدر ڈھٹائی کے ساتھ دہشت گرد مار دینے، خود کش جیکٹ اور اسلحہ برآمد کرنے کا پریس ریلز جاری کیا گیا ،اس سے ہمیشہ کی طرح پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس ملک کا اولین مسئلہ پولیس ہے مستزاد سب سے ذیادہ بد تر کردار پنجاب پولیس کا ہے ۔آئے دن جھوٹے مقابلے ،قتل،حبس بے جا،جھوٹے پرچوں کے ذریعے مال خوری،با اثرافرد کی کاسہ لیسی،نجی جیلیں اور نہ جانے اور کیا کیا،70ء کے بعد سے پولیس کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا مگر کوئی بہتری رونماء نہیں ہوئی،دوہری تنخواہیں،ملازمت کو تحفظ،رہائشی پلاٹ،شہدا پیکج اور اربوں کے بعدکھربوں کی حدود کو چھوتا ہو ابجٹ،ان سب کا رزلٹ کیا ہے؟ہر چند روز کے بعد معاشرے کے منہ پر پولیس گردی کا طمانچہ، اسلام آباد اور راولپنڈی میں کئی بار ایسے واقعات ہو چکے ہیں جیسا ساہی وال میں ہوا ،افسوس اس بات کا ہے کہ ہر سانحہ کے بعد چند روز تک معاملہ چلتا ہے ،کچھ بیان بازی ہوتی ہے اور اس کے پھر ایک نئی پولیس گردی کا انتظار شروع کر دیا جاتا ہے ،اس کی سب سے بڑی وجہ ذمہ داروں کا سزا سے بچ جانا ہے ،یہ قانون کاسقم ہے ،یا ڈیڑھ سو سال سے جاری ملی بھگت جس میں کسی پولیس افسر کا احتساب ہونا ناممکن بنا دیا گیا ہے ،2000ء کے بعد ایک نیا ء قانون لایا گیا تھا ،اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑ سکا، اسلام آباد میں پولیس کے ایسے افسر موجود ہیں جو اربوں کی پراپرٹیزکے مالک ہیں،سویلین سیٹ آپ میں اگر ’’موج ہی موج‘‘ کا نعرہ مستانہ کوئی ادارہ لگا سکتا ہے تو وہ پولیس اور اس کے افسر ہیں،خاک نشیں ایک بار کسی کام سے پولیس افسر کے پاس گیا تو اس وقت وہ اپنے ایک ماتحت پر برس رہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ فلاں جج روز بلا لیتا ہے ’’اوئے اس دے گھر ڈاکہ مارو‘‘ وہ ڈاکہ پڑا یا نہیں مگر اس سے ذہنیت ضرور واضح ہو گئی ،ساہی وال واقعہ پر ساری ’’ چین آف کمانڈ‘‘ کے خلاف اگر سخت کارروائی نہ کی گئی تو پھرکچھ فرق نہیں پڑنے والا ،کس کے حکم پر پریس ریلز جاری کر کے عوام کو گمراہ کیا گیا ،اس پریس ریلز کی اجازت دینے والا افسر بھی سانحہ کا اتنا بڑا ذمہ دار ہے جتنی ذمہ داری گولیاں مارنے والوں کی بنتی ہے ،’’کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا‘‘،وزیر اعظم کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ صرف نعروں سے کام نہیں چلنے والا ہے ،جب تک انصاف فراہم کرنے والا نظام درست نہیں ہوتا کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے ،100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے آئیں ،سڑکوں کو سونے کا بنا ڈالیں ، بے شک چار،چار ترجمان رکھ لیں،بیس ،بیس گھنٹے کام کر لیں آخر میں ناکامی ہی ہاتھ آئے گی کیونکہ انصاف دینے والا سسٹم کرپٹ،نااہل اور خونخوار ہے،اس میں لوگ ایجنڈے لے کر آتے ہیں،طاقتور اس میں اپنے ایجنٹ داخل کر رہے ہیں،گذشتہ 20سال میں کتنے پولیس افسروں کو سزا ہوئی ؟ اگر ہوئی بھی تو کتنی دیر تک برقرار رہ سکی؟کرپشن میں کتنوں کے خلاف انکوائری ہوئی اور اس کا انجام کیا ہوا ،ایسے جعلی پولیس مقابلوں میں کتنے افسروں کے خلاف عملی قدم اٹھایا گیا ،اس کا حساب کتاب کرنے کے لئے فرشتوں سے ہی مدد طلب کرنا پڑے گی باقی یہاں تو کوئی پوچھنے اور روکنے والا نہیں ہے ،ساہی وال واقعہ کو بھی اگر میڈیا نہ اٹھاتا اور موقع پر جا کر پولیس کے داعوئوں کی قلعی نہ کھولتا تو یہ 24گھنٹوں میں بند کی جانے والی فائل تھی ،نام نہاد سے کاغذی انکوئرای کے بعد اس کو دبا دیا جاتا ،ساہی وال کے ڈی سی بہت ہی ستائش کے حقدار ہیں جنہوں نے دراصل پولیس کے داعوئے کی تسلیم نہیں ،اس واقعہ پر اب تو حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے لمبے بیانات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ،’’بوکے‘‘ لے کر ہسپتال پر یلغار کرنے اور تصاویر چھپوانے کامقابلہ بھی جاری ہے، افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات تو آئے روز ہوتے رہے ان کی روک تھام کے لئے کیوں کچھ نہ کیا گیا ،سیاسی ایشوز کے سوا ہمارے پاس اور کچھ کام کرنے کو نہیں ہے،سارا نظام کچھ شخصیات کے گرد گھوم رہا ہے،ان کے علاوہ کسی کو نہ کچھ دیکھائی دیتا ہے اور نہ سجھائی،لوگ مر رہے ہیں ،تباہ ہو رہے ہیں،فنا ہو رہے ہیں،ریاست پر اعتبار کو کھو رہے ہیں ،مگر ہم ہیں کہ آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس نے قومی زندگی کو شرمندگی،بدنامی،بے عملی کے سوا کچھ اور نہیں دیا ہے ،وردی بدل دینے سے بھی کبھی مزاج بدل سکتا ہے ، ہمیں پولیس اور انصاف کے نظام کو بدل لینا چاہئے،اس کے بنا کبھی ترقی نہیںہو سکے گی ،سارے کام چھوڑ کر اب اس جانب توجہ دینا ہو گی،سارے وسائل کا رخ ان کی بہتری کی جانب کرنا ہوگا ،انصاف کو معاملہ درست کرنے پر ہی باقی سب کامیابیوں کا دارومدار ہے ،ابھی اور اسی وقت سے اس جانب کام کرنا ہو گا ،خاک نشیں کا اس بار ارادہ تو تھا کہ منی بجٹ پر بات کی جائے،مذید ایک سو ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی تیاریوں کا تذکرہ ہو ،ایف بی آر کی نا اہلی کی سزا بیچارے 70فی صد غریبوں کو دینے کا نوحہ پڑھا جائے،وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر کے دلائل کا تجزیہ کیا جائے ، بجلی ،گیس کے نرخ بڑھا کراورپرتعیش اشیاء قرار دے کر 2ہزار سے ذائد آیٹمز پر مذید ٹیکس ’’ٹھوکنے‘‘ اور پھر بھی غریب پر کوئی اثر نہ پڑنے کی تھیوری کو سمجھنے کی کوشش کی جائے،مگر ساہی وال کے سانحہ نے توجہ حاصل کر لی ،مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کیا اس ملک کے غریب کسی محفوط جزیرے پر رہتے ہیں جو ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا ،ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ،صارف اس ملک کا غریب ہے وہ کیسے اثرات سے بچ سکتا ہے ،اس کی وضاحت یہ دونوں ناقابل رسائی شخصیات نہیں کرتی ہیں ،لیکن یہ سامنے آئیں یا نہ آئیں ان کو بتانا ضروری ہے کہ حضرت مولانا روم نے اپنی’’ مثنوی معنوی ‘‘میں ہر پہلو پر بات کر گئے ہیں ،ایک جگہ لکھا کہ ’’زندگی کو اگر لدا اونٹ سمجھ لو ،اس پر دائیں اور بائیں لدھے ہوئے تھیلے ہم وزن ہونے چاہئیں،اگر دونوں کا وزن برابر، برابر نہ ہو تو مال اونٹ کی پیٹھ سے سرک کر گر جاتا ہے ‘‘اس لئے عوام کی زندگی پر سہولت اور ٹیکس کا بوجھ متوازی ہی ڈالیں ورنہ ساری تھیوری دھری کی دھری رہ جائے گی۔