سماجی مسائل کا حل تقاضائے وقت
علم سماجیات آج عالمی سطح پر ایک مضمون ہے جو معاشرہ کی تشکیل‘ اطوار‘ رسوم اور تہذیب وتمدن پرسائنٹیفک بنیادوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ طاقتور اور زندہ اقوام کے اسالیب واقدار ہوتی ہیں۔ تعلیم وتربیت‘ برداشت‘ عقل نوازی‘ انصاف پسندی‘ جمہوریت‘امن واماں‘قانون کی پاسداری‘ انسانی حقوق کا تحفظ‘ رواداری‘ صداقت‘ امانت‘ دیانت اور وضع داری زندہ وپائیدہ وتابندہ اقوام کی خصوصیات ہیں۔ جو اقوام ان انسانی اعلی وارفع اقدار سے محروم ہیں ان کا شمار ’’العوام کا اللنعام‘‘ یعنی عوام جانوروں کی مانند ہیں میں ہوتا ہے۔ تعلیم حیوان اور انسان میں خط امتیاز اور حد فاصل ہے۔ علم کی افضل ترین منزل حکمت ہے۔ حکمت عطیہ خداوندی ہے۔ سقراط‘ افلاطون اور ارسطو صاحبان حکمت تھے جنہیں اصطلاحی بیانیہ میں فلاسفہ کہا جاتا ہے۔ خصوصیات اکتسابی نہیں بلکہ وہی ہیں۔ یہ خصوصیات انعام پروردگار ہیں۔ اللہ جس بندے کو پیغمبری کے لیے چن لے اس پر نزول وحی ہوتا ہے۔ فلسفی بھی آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ صاحب حکمت ہی صاحب ادراک ہوتا ہے۔ شاعری بھی تحفہ غیبی ہے۔ اسی لیے شاعر کو لسان الغیب کہا جاتا ہے۔ حدیث رسول ﷺ ہے شاعر اللہ کا شاگرد ہوتا ہے۔ شاعر پیدائشی شاعر ہوتا ہے۔ وزن میں شعر کہا ہے۔ بے وزن شعر بے وزن شاعر کہتا ہے۔ آزاد شاعری شاعری سے آزاد ہونا ہے۔ شاعری چند بنیادی اصولوں اور ضوابط کا نام ہے۔ خطابت بھی ہر کس وناکس کے بس کا کام نہیں۔ مقرر تو ہر قدم پر دستیاب ہیں مگر خطیب کم یاب ونایاب ہیں۔ حضرت موسیؑ شعلہ بیان نہ تھے۔ دربار فرعون میں کلمہ حق بیان کرنے کا حکم ربانی ملا۔ عرض کی پروردگار میں فصاحت وبلاغت نہیں رکھتا۔ میرا بھائی ہارون فصیح وبلیغ ہے۔ اسے میرا ہمدم وہمنوا بناکر میرے ساتھ بھیج اور یہ دربار فرعون میں عظمت توحید بیان کرے۔ حضرت لقمان کو حکمت سے سرفراز کیا گیا۔ ’’ سورہ ص‘‘ کی آیت نمبر 20 میں حضرت داؤد کو صاحب حکومت وحکمت وبلاغت قرار دیا گیا ’’ فصل الخطاب‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے۔ گویا خطیب شعلہ بیاں اگر درد انسان رکھے تو وہ پہاڑوں کو کوسر کا سکتا ہے اور رفعت ثریا کو جھکا سکتا ہے اور شمع ادراک وانقلاب جلا سکتا ہے۔ پاکستان میں ماہر سماجیات اسے سمجھا جاتا ہے جو سماجیات پر لکھی ہوئی چند انگریزی کتابوں کو پڑھ کر امریکہ اور انگلستان کے ماہرین سماجیات کی آراء پر رائے زئی کرتا یا فلسفہ بھگارتا ہے۔ علم سماجیات SOCIOLOGY پر موقوف زمینی حقائق کی روشنی میں تخلیقی اور تحقیقی ریسرچ بہت کم ہے پاکستانی اساتذہ مسائل کا حل بتانے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف ایک سماجی مسئلہ کا ذکر کرتا ہوں۔ پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں 90 فی صد ڈرامے شادی بیاہ اور ساس بہو کے معاملات وتنازعات واختلافات پر مبنی ہیں۔ مثبت تحریر کی بجائے منفی تحریر کا رواج ہے اور تباہی سماج ہے۔ چند دن پہلے ایک ٹی وی ڈرامہ دیکھ رہا تھا جس میں نوجوان لڑکا اپنی بیوی سے اس بات پر جھگڑرہا تھا کہ وہ شادی سے قبل اپنے چچا زاد نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ شادی کے بعد جب لڑکے کو اس ’’محبت خفیہ‘‘ کا علم ہوا تو وہ بھڑک اٹھا اور بیوی کو طلاق کی دھمکی دے دی لڑکے کو اس کی والدہ اور لڑکی والوں نے سمجھایا کہ لڑکی کا چچا زاد سے لڑکی کا کوئی ’’افسانہ محبت‘‘ نہیں ہے بلکہ ان کا رشتہ وتعلق تو بھائی بہن جیسا ہے مگر شیشے میں بال آجائے تو کون نکالے۔ دیوار کے شگاف پُر ہوتے نہیں تو دلوں کے زخم کیسے بھریں گے۔ آمدم برسر مطلب اس سماجی معمہ کا حل ڈھونڈتا ہے پاکستان پر بھارتی اور مغربی کلچر کی یلغار ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ عالمی ثقافتی اثرات سے بچنا محال ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ پسند وناپسند کے معاملات فطری وسماجی معاملات ہیں۔ اکثروالدین نے سماجی تبدیلیوں کو ذہنی طورپر قبول نہیں کیا۔ بچوں کی شادی میں قبیلہ ‘ قوم ‘ زبان اور مسلک ومذہب کی مضبوط دیواریں کھڑی ہیں۔ ایسے میں پسند کی شادی میں کئی جوڑوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ پسند کی شادی ہر بالغ لڑکے اور لڑکی کا ذاتی‘ سماجی اور مذہبی حق ہے۔ امریکہ اور یورپ میں نوجوان شادی کے بغیر بھی جنسی روابط قائم کرتے ہیں۔ پاکستان اور کئی مشرقی‘‘ افریقی اور اسلامی ممالک میں مناسب رشتوں کی تلاش میں لڑکے اور لڑکیاں جوانی کی حدیں عبور کرکے ’’انتظار عروسی‘‘ میں بوڑھے ہو جاتے ہیں یا عاشقانہ گیت گا گا کر شب بھر ’’ستاروتم تو سو جاؤ پریشاں رات ساری ہے ‘‘ سے دل بہلاتے اور زخم دل سہلاتے ہیں ۔ جنسی خواہشات کی تکمیل فطری امر ہے۔ عیسائی مذہبی رہنما مارٹن لوتھر نے راہبہ کے غیر شادی شدہ رہنے پراعتراض اٹھاتے ہوئے اسے غیر مسیحی اقدام قرار دیا۔ قرآن مجید نے نکاح کا حکم دیا۔ حدیث رسولؐ ہے ’’نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ‘‘ پاکستان میں ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی بیٹی اعلی تعلیم کے حصول میں مگن ہے اور اس کی عمر 35 سال ہو چکی ہے۔ بیٹی لیڈی ڈاکٹر ہے۔ ملازمت بھی کرتی ہے لیکن سپیشلائزیشن کے کورسز میں مصروف ہے۔ بیٹی کی عمر زیادہ ہوگئی۔ رشتے نہیں آرہے پریشانی ہے یہ ہمارا سماجی مسئلہ ہے۔ اکثر گھروں میں یہ عذاب دیکھنے میں آرہا ہے ۔ اس کا مذہبی وسماجی حل حکومت اسلامی ایران نے ڈھونڈ لیا ہے۔ ایران میں اب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں عاشقانہ گانے گاتے نظر آتے ہیں نہ ہی جنسی بے راہ روی نظر آتی ہے۔ نہ شب ہجراں کی آئیں اور نہ تاخیر کی شادی کی قباحتیں‘ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دوران تعلیم شادی کر لیتے ہیں۔ عموماً خاندانی منصوبہ بندی کرتے ہیں تا وقیکہ وہ برسر روزگار ہوجاتے ہیں اور اولاد کی پرورش کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ تاخیر کی شادی کئی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ نوجوانوں کی شرعی شادی کر دی جائے۔ جہیز کی لعنت اور نمودنمائش سے گریز کیا جائے تو یہ سماجی مسئلہ بہ آسانی حل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے سماجی ومعاشرتی مسائل کا فطری اور انسانی حل تلاش کرنا پاکستان کے ماہرین سماجیات کا قومی فریضہ ہے۔ اسلام میں اسے اجتہاد کہتے ہیں۔ مذہبی اور مسلکی مسائل پر تنازعات اور مناظرے کرنے کے بجائے زمینی حقائق اور روح عصر کے مطابق سماجی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل ہی آئین زندگی ہے بقول اقبال
آئین نو سے ڈرناطرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں