وفاقی پولیس اور نئے چیلنج
وفاقی دارالحکومت میں جرائم کنٹرول کرنے کیلئے جتنے بھی جتن کئے گئے ان سے جرائم رک نہ سکے اسلام آباد کے پہلے 9تھانے تھے جو آج20ہیں فورس کی تعداد کہیں سے کہیں پہنچ چکی اسلام آباد ضلع کی پولیس میں ایک پورے صوبے کی پولیس کا سیٹ اپ بن چکا ہے ہر مارکیٹ، پلازہ ، رہائشی علاقے اور سٹریٹ پہلے ہی سی سی کیمروں سے لدی پڑی ہیں سیف سٹی کیمرے الگ سے شہر کی شاہراہوں اور سڑکوں پر لشکارے مار رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود جرائم رونما ہوتے ہیں سٹریٹ کرائم سے لے کر چوری ، ڈکیتی ، قتل ، اقدام قتل ، زمینوں اور املاک پر قبضے معمول ہیں شراب فروشی ، منشیات فروشی کے جرائم بھی اسلام آباد میں عام ہیں پہلی بار منشیات فروشی کے خلاف پولیس اور اے این ایف نے مل کر کارروائی شروع کی ہے یقیناً اس کوشش کے نتائج بھی اچھے ہی نکلیں گے سوال یہ ہے کہ جرائم ختم کیوں نہیں ہوتے اور عوام ہمیشہ لٹتے کیوں رہتے ہیں اس کے معاشرتی ، معاشی اسباب پر نظر دوڑائیں تو یہ کہا جاتا ہے ملک میں بیروز گاری ہے روزگار کے مواقع نہیں لیکن بیروزگاری جرم تو نہیں سکھاتی بیروزگاری تو بیروزگار کا خون ہی نچوڑ لیتی ہے آج ہمارے سامنے موجودہ نسل جو خرابیاں اور برائیاں دیکھ رہی ہے یاد رکھیں وہ اگلی نسل میں پچھلی نسل کی پوری داستان کے طور پر یاد کی جاتی ہیں ان میں سے کچھ معاشرتی روایات بھی بن جاتی ہیں اس لئے یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اچھی پولیسنگ سے معاشرے کی تشکیل میں وہ عوامل سامنے لائے جائیں جن سے ہم آنے والی نسل کو بہتر روایات دے سکیں پرامن اور پر سکون معاشروں کی پولیسنگ مختلف ہوتی ہے جبکہ تنگ ماحول اور بڑہتی آبادی کی اربن سوسائٹی کی پولیس الگ زاویوں سے چلتی ہے جوں جوں شہر بڑے ہوں گے اور ان کے اطراف آبادی بڑھے گی توپولیسنگ بھی مشکل ہوتی جائے گی آج وفاقی پولیس انہی چیلنجوں سے دوچار ہے وفاقی پولیس ہی کبھی اس شہر کے سیکٹروں میں پیدل ، بعد میں سائیکل پر بھی گشت کرکے بہترین پولیسنگ دیتی تھی واچ اینڈ وارڈ یعنی پہرے داری کے الگ طور طریقے تھے آج ساری پولیسنگ سی سی کیمروں ، فرانزک اور موبائل فونوں کے ڈیٹا کے گرد گھومتی ہے پہلے پولیسنگ جٹکے سٹائل سے چلتی تھی آج ہم نے پولیسنگ ماڈرن بنانے پر زیادہ توجہ دی پولیس کولوگوں کے ساتھ اپنا اخلاق بہتر کرنے کے لیکچر دئے گئے اور پولیس اہلکاروں کے چہرے پر مسکراہٹ سے اسے عوام فرینڈلی بنانے کیلئے جتن کئے لیکن اس ساری کوشش میں شہر اور شہریوں کے نفسیاتی ، سماجی عوامل یکسر پیچھے چھوڑ دئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عام شہری اسی کوشش میں رہا کہ اسے پولیس سے کوئی واسطہ نہ پڑے پولیس لیڈرشپ نے عوام فرینڈلی پولیسنگ کیلئے شہریوں کی کمیٹیاں بھی بنائیں لیکن اس سب کے باوجود شہریوں میں عدم تحفظ بڑہتا رہا سٹریٹ کرائم جس انداز سے بڑہا اس سے بالخصوص خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں سٹریٹ کرائم کی وارداتیں روکنے میں سی سی کیمرے اور سیف سٹی کیمرے بھی کوئی زیادہ مدد گار نہ ہوئے وفاقی پولیس نے اپنی موثر پولیسنگ کیلئے شہر میںآبادی کا بریک اپ سروے نہ کرایا جس کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس تناسب سے اسے اپنے ضلع کی آبادی کو پولیسنگ دینی ہے اگر آبادی کے درست بنیادی اعدادو شمار دستیاب ہوں گے توپولیس کے علم میں ہوگا کہ اس نے شہر میںروزانہ کی پولیسنگ کیلئے کیا کیا ضروریات پوری کرنی ہیں اس وقت پولیس کے آپریشنز کے شعبے اور عوام میں ربط پیدا کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ پولیس میں بے پناہ نئے شعبے بننے سے عام شہری کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے مسئلے کے حل کیلئے کس کے پاس جانا ہے ایس ایس پی آپریشنز شہریوں سے روابط کا فورم اسی طرح بننا چاہئے جس طرح ہمیشہ سے رہا ہے اس سے اوپر جو افسران ہیں وہ اس وقت شہریوں کی داد رسی کریں جب نیچے سسٹم کی عملداری میں سقم سامنے آئے شہری کی داد رسی کیلئے پولیس اپنے کسی اقدام کو سفارش نہ سمجھے بلکہ اس کی بہتر داد رسی کیلئے اپنی ذمہ داری کا دائرہ خود طے کرے تاکہ پولیس اور شہریوں میں فاصلے ختم ہونے کا کلچر فروغ پائے آئی جی اسلام آباد محمد عامر ذوالفقار خان نے شہریوں کے مسائل حل کرنے اور پولیسنگ کو موثر کرنے کیلئے تیزی سے اقدامات کئے ہیں ٹریننگ کورس بھی نئی تبدیلیوں سے شروع کرائے ہیں اس سے فورس کا نہ صرف مورال بڑھے گا بلکہ پولیسنگ میں بہتری کے آثار بھی نمایاں ہوں گے ۔ؑ