ایک تصویر ایک کہانی
لاہور کے سرحدی گائوں کا رہائشی بشیر احمد ہفتے میں دو دن دیسی مرغیاں اپنے آٹو رکشہ ٹھیلے پر شہر کے مختلف علاقوں میں لا کر فروخت کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی یہی کام کر رہا ہے۔ پانچ دن وہ اپنے گائوں کے اردگرد کے گائوں سائیکل پر گھوم پھر کر یہ مرغیاں اکٹھا کرتا ہے پھر انہیں شہر لا کر بیچتا ہے عرصہ قبل تو مختلف دیہات سے دیسی مرغیاں وافر تعداد میں مل جایا کرتی تھیں اس وقت دیہات میں مرغیاں پالنے رکھنے کا ایک اچھا رجحان ہوا کرتا تھا اب وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ مرغ بانی کے شوق میں بہت حد تک کمی واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اب مال اس تعداد میں اکٹھا کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے خالص دیسی مرغیاں اب تو دیہات سے بھی کم کم ملتی ہیں۔ میرے تین بیٹے ہیں میں نے ان کو بھی چھوٹی چھوٹی عمروں میں اپنے ساتھ اس ہی کام میں لگایا ہوا ہے تاکہ وہ کام کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھیں اور بڑے ہو کر ان کو اس کام میں مہارت ہو۔ تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر بھی انہوں نے کام تو یہی کرنا ہے۔ گائوں میں وراثتی گھر ہے اللہ پاک کا بے حد شکر ہے اتنی محنت مزدوری مل جاتی ہے جس سے میں اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ اچھا وقت گزار رہا ہوں۔(فوٹو :گل نواز)