میری اہلیہ رفعت خانم وزیراعلیٰ کی اہلیہ محترمہ پروفیسر بیگم صوفیہ بُزدار سے ملنے کے بعد بہت جذباتی ہیں۔ وہ اُن کی بہت معترف ہوئی ہیں اور اُن کی بیحد تعریف بھی کرتی ہیں۔ وہ ہمارے ہمسائے میں بیٹی ساجدہ شکور کی معرفت ملیں۔ ساجدہ شکور بیگم صوفیہ بُزدار کے تمام معاملات کااہتمام کرتی ہیں۔ بیگم صاحبہ بھی ساجدہ کی خدمات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ وہی خاتون اپنے دفتر میں کامیاب نیک نام اور قابل عزت ہوتی ہے جو صلاحیت اور شرافت کوایک ہی خوبی سمجھتی ہو۔
یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ بیگم صوفیہ بُزدار کالج میں باقاعدہ لیکچر دیتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اُنہیںاپنے پروفیسر ہونے پر زیادہ افتخار ہے۔ اس طرح وزیر اعلیٰ کی اہلیہ ہونا بھی ایک منفرد اور ممتاز خوبی بن جاتا ہے۔ میرے خیال میں وہ پہلی اور واحد خاتون ہیں جو ایک صوبے کی خاتون اول ہیں اور پروفیسر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی کو پروفیسرصوفیہ بُزدار سے ملنا چاہئے کیونکہ یہ ہماری سیاسی تاریخ میں شاید پہلی مثال ہے۔ اس کے لئے میں بیگم پروفیسر صوفیہ صاحبہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی بھی مثبت انداز میں پاکستان کے معتبر اور ممتاز حلقوں میں قابل ذکر رہتی ہیں اور اب پروفیسر صوفیہ بی بی بہت قابل تعریف سمجھی جا رہی ہیں۔ بہت اچھی بچی بیٹی ساجدہ شکور سی ایم آفس میں ان کے ہائوس کودیکھتی ہیں۔ اس لحاظ سے اُن کا رابطہ محترمہ پروفیسر صوفیہ بُزدار کے ساتھ بہت رہتا ہے۔ کچن کے بھی سب معاملات کو وہ دیکھتی ہیں۔ ساجدہ شکور بہت مدت سے اس دفتر سے وابستہ ہیں۔ ایک دفعہ برادرم چودھری نثار کے ساتھ وہاں مجھے کھانا کھانے کا موقع ملا تھا۔ بیٹی ساجدہ شکورنے بتایا کہ وہ کھانا بھی اُس کی نگرانی میںتیارکیا گیاتھا۔ یہ فریضہ بھی کسی گھریلو معاملات دلچسپی لینے والی خاتون کاکام ہے۔ خوشی ہے کہ وہ اب بھی اسی کام کے ساتھ منسلک ہیں۔
میری بیوی رفعت نے بتایا کہ بیگم صوفیہ بُزدارکی ملاقات میرے لئے ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ میں تو کچھ اور سوچ کے گئی تھی۔ مگر وہاں ایک خالصتاً بہت خوبصورت گھریلو ماحول دیکھ کرحیرت ہوئی اور خوشی ہوئی۔ محترم المقام پروفیسر صوفیہ نے مجھے اپنی بچیوں سے بھی ملوایا۔
دو بچیاں مرے ساتھ ملیں۔ تیسری بچی کہیںگئی ہوئی تھی۔ ایک بچی کا نام تقدیس فاطمہ ہے میری اہلیہ نے انہیں بتایا کہ میری ایک ہی بچی کا نام تقدیس فاطمہ ہے۔ یہ نام اس کے باپ ڈاکٹرمحمد اجمل نیازی نے رکھا ہے۔ انہیںبچیوں کے لئے تقدیس کا بہت خیال رہتا ہے۔ یہ ہمارے لیے اعزاز ہے کہ آپ کی بچی کا نام بھی تقدیس فاطمہ ہے۔ اللہ ان کوبھی اپنے نام جیسا بنائے۔
پروفیسر صوفیہ بُزدارنے پوچھاکہ آپ کے شوہر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ہیں۔ وہ لکھتے بھی ہیں۔ میری بیوی نے اپنے دل میں سوچاکہ وہ میری کچھ کتابیں پڑھنے کے لئے پروفیسر صوفیہ صاحبہ کو پیش کریں گی۔نوائے وقت میں ان کے کالم کبھی دیکھتی ہونگی۔ بیٹی ساجدہ شکور ان کی خدمت میں میری کتابیں لے جائیں گی۔ میرے لئے خاص طور پر یہ بات افتخارکا باعث ہے کہ میری اہلیہ رفعت پروفیسر صوفیہ صاحبہ کے پاس گئیں اور یہ معاملہ بیٹی ساجدہ شکور کے حوالے سے ممکن ہوا۔ میری اہلیہ نے ان کی باتیں کئی بار کیں اور خوشی کا اظہارکیا۔ وہ اس سے پہلے کسی وزیر اعلیٰ کی بیوی سے نہیں ملیں۔ کئی مواقع ملنے کے باوجود اس نے کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ البتہ میری خواہش تھی کہ وہ محترمہ کلثوم نواز سے ضرور ملیں۔ وہ وزیراعظم کی بیوی تو تھی مگر وہ میری کلاس فیلو بھی تھی…
بیٹی ساجدہ شکور بُزدار گھرانے کی بہت تعریف کرتی ہیں۔ بُزدار صاحب کے لئے بیٹی ساجدہ نے بتایا کہ وہ بہت اچھے انسان ہیں۔ صبح کی سیر کے لئے نکلتے ہیں تو سب لوگوں سے ملتے ہیں۔انہیں سلام کرتے ہیں۔
ایک دفعہ کوئی صفائی کرنے والا بُزدار صاحب کی تصویر بنانے لگا تو اُسے بُزدار صاحب نے اپنے پاس بلا لیا اور تصویریں بنوائیں اورکہا کہ اب ان تصویروںکی کچھ اہمیت بھی ہو گی۔ آپکے لئے اور لوگوں کے لئے بھی۔
بیگم صوفیہ بُزدار کی یہ بات کتنی اہمیت اور معنویت کی حامل ہے کہ میں نے یہ سٹیٹس پہلی بار نہیں دیکھا ، میری نظر میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں جب بُزدار کے شہرمیں تھی تو وہاں اپنے شہر میں بھی وہ ایک سردار تھے اور اب بھی سردار ہیں۔ صرف لیول کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتا۔ وہ پہلے بھی سردار تھے۔ وہ اب بھی سردار ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ وہ صوبہ پنجاب کو بھی صوبہ ’’بُزدار‘‘ سمجھے ہیں تو پھر اپنے شہر بُزدار کو صوبہ پنجاب سمجھتے ہونگے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024