ہمیں ڈرایا جاتا ہے کہ ریاست کی طاقت سے مت ٹکرائو، مگر سوال یہ ہے کہ ریاست کے اختیار کا مطلب کیا ہے۔کیا یہ اختیار ریاست کوحاصل تھا کہ بابائے قوم کی ایمبولینس کو کراچی کی دھوپ میں ایک ٹریفک سگنل پر روکے رکھا جائے۔ حتیٰ کہ بابائے قوم نڈھال ہو جائیں اور گھر پہنچنے پر اللہ کو پیارے ہو جائیں۔ حال ہی میں ہم نے ریاست کی طاقت کا ایک اور مظاہرہ دیکھا۔ ایک چھوٹی سی گاڑی جو اسی میل کی رفتار سے اوپر نہیں جا سکتی تھی، اسے روکنے کے لئے اس کے ٹائر گولیوں سے پھاڑ دیئے گئے اور گاڑی کے اندر سے بچوں کو نکال کر باقی سواریوں کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک ایک مرنے والے کے جسم میں درجنوں گولیاں دھنس گئی تھیں۔
ہم نے پاکستان کسی طور بنا تو لیا مگر شاید نئی ریاست کو چلانے کا ہنر ہم نہیں جانتے تھے۔ ہم نے اپنے طرز عمل سے الٹا یہ ثابت کیا کہ ریاست کو کیسے نہیں چلایا جاتا، چند ہی برسوں میں ہم نے ریاست کو دو لخت کردیا۔ ہمارا خیال تھا کہ ریاست کا الگ کر دیا جانے والا حصہ باقی ریاست کی معاشی ناکامی کا باعث ہے۔ مگر جو حصہ بچ گیا، اسے ہم نے کیسے چلایا،اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنے والے بھٹو کو ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ کیا ریاست مقننہ کو اجازت دیتی ہے کہ سنتالیس میں ملک بن جائے ا ور تہتر تک اس کا دستور ہی نہ بنایا جا سکے۔ آج وزیراعظم کہتے ہیں کہ ریاست کو پرائی جنگ کا حصہ نہیں بننے دیں گے مگر جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے اپنی اپنی باری پر ریاست کو پرائی جنگ میں جھونکا،۔ جنرل ضیا نے افغانستان میں جہاد کیا اور جنرل مشرف نے ملک کے اندر دہشت گردوں کی موجودگی کا پروپیگنڈہ کر کے ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ عمران خان اکیلے نہیں کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس جنگ کو پرائی جنگ ہی کہتی رہی ہیں۔ ایک نظر نہ آنے والی جنگ ریاست اور اس کے شہریوں کے مابین ہر وقت جاری ہے۔ کہیں ریاست کے نام پر پٹواری کا سکہ چلتا ہے اور کہیں تھانہ محرر ریاست کا ماما بنا نظرآتا ہے، دفتری بابو اپنی جگہ اکبر بادشاہ کے اختیارات استعمال کرنے کا عادی ہو گیا ہے، اکبر بادشاہ کے پاس بھی محدود ریاستی اختیارات تھے، مگر فرعون کے ہاتھ میں لامحدود ریاستی اختیارات تھے۔ اسے خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی نیا پیدا ہونے والا بچہ اس کا نام ونشان مٹادے گا ۔ چنانچہ اسنے ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کے قتل عام کا حکم دے دیا۔ نمرود کو ایک نوجوان پر غصہ آیا تو اسے جلتی آگ میں پھینکنے کا حکم سنا دیا۔ ہلاکو، چنگیز اور ہٹلر نے ریاست کا ہر اختیار ہاتھ میں سمیٹ لیا اور انسانی سروں کا مینار بنا کر ان پر تخت سجایا۔ ایک امریکی صدر نے اپنی ریاست کے اختیارات کو عالمی سطح پر محیط کرتے ہوئے۔ جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے لاکھوں شہریوں کو ایٹم بموں سے خاکستر کرد یا، تاریخ انسانی میں ہر کام ریاست کے نام پر ہوا۔ مگر آج تک کوئی فلاسفر یہ نہیں بتا سکا کہ ریاست کے نمائندوں کو لا محدود اختیارات کہاں سے مل جاتے ہیں۔ میری ناقص معلومات کے مطابق صرف اسلامی ریاست کو لا محدود اختیارات حاصل نہیں ہوتے اورایسی ریاست کا وجود فی الوقت دنیا میں کہیں نہیں، باقی تو اندھیر نگری ہے ، لوگ جنگل کے قانون کو بھگتنے پر مجبور ہیں۔ انتہائی مہذب ریاستیں بھی مذہبی تعصب سے لیس ہیں اور وہ اسے اپنا حق مانتی ہیں۔
پاکستان میں لوگ خوف زدہ ہیں کہ کیا وہ قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں محفوظ ہیں یا نہیں بظاہر تو ہر کوئی غیر محفوظ ہے۔ کسی کا بھی سینہ بارہ یا تیرہ گولیوں سے چھلنی کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے چند طعنے ایجاد کئے تھے، القاعدہ ۔ داعش۔ آئی ایس ایس۔ امریکہ نے یہ طعنہ جس پر چاہا، اس پر تھوپ دیا۔ اب ہم بھی جس کو چاہیں ان طعنوں کا سزا وار ٹھہرا دیتے ہیں۔ ریاستی نمائندے کسی کو سرعام قتل کر دیں تو اس کی تحقیق بھی انہی کے بھائی بند کرتے ہیں اور مرضی کی رپورٹیں جاری کر دی جاتی ہیں۔ اگر کوئی تحقیق غیر جانبدارانہ کی جاتی تو سانحہ ماڈل ٹائون کا فیصلہ اب تک سو بار کیا جا چکا ہوتا۔ اگر سانحہ مشرقی پاکستان کی دیانت دارانہ تحقیقات کی جاتیں تو جنرل یحییٰ خان کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سانحہ ساہیوال کوئی نئی بات نہیں۔ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر قصور کی معصوم زینب کے سانحے تک رونما ہوتے رہے۔ ریاست انصاف کرنے سے قاصر رہی جس کی وجہ سے ظلم کی گرم بازاری جاری ہے۔ سانحہ ساہیوال پر بھی مٹی ڈال دی جائے گی اور پھراس سے بھی گھنائونے سانحے رونما ہوتے رہیں گے اور یہ سب کچھ ریاست کے نام پر ہو گا۔ ریاست کی مرضی ہو تو ملک کے کسی شہری کا بنیادی حق سفر چھین لے اور اسے ای سی ایل پر ڈال دے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ریاست ایک حکم کے ذریعے ہر شہری کو ای سی ایل میں ڈال دے۔ ریاست طاقت دکھانے پرآئے تو کرفیو نافذ کر کے اس ملک کے شہریوںکو گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت تک نہ دے۔ سوالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے ذہنوں میں آ رہا ہے۔ اب یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ ریاست کے مالک اس کے عوام ہی ہیں۔ پاکستان برصغیر کے مسلم عوام نے بنایا تھا، اس لئے حق نیابت عوام کو لوٹایا جائے اور ریاست کی نکیل عوام کے ہاتھ میں دی جائے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024