نیب‘ حکومت اور عدلیہ کے مکالمے
گزشتہ ایک ہفتے سے عدلیہ‘ نیب اور حکومت کے درمیان ایسے مکالمے ہورہے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سب ایک دوسرے کی کارکردگی سے نالاں ہیں یا ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کی کوشش کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس نے نیب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی نظر میں ہر ایک چور ہے اور اگر کوئی کام نیب کے حوالے کردیں تو لوگ ڈر کے مارے گھروں میں چھپ جاتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کو 10روز کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا اب ملک کو نیب چلائے گا؟
ایک وفاقی وزیر نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری میں اب کیوں تاخیر کررہی ہے؟ اسی طرح وفاقی وزیر نے چیئرمین نیب کو کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو طلب کرنے پر معذرت کی جانی چاہئے۔ وفاقی وزیر کے جواب میں نیب کی جانب سے پریس ریلیز میں کہا گیا کہ نیب اعلٰی عدلیہ کے احکامات کے مطابق اپنا کام کرے گی اور کسی وزیر کی خواہش پر نیب کوئی کارروائی نہیں کرے گی بلکہ آئین و قانون کے مطابق اپنا کام جاری رکھے گی۔ نیب نے حکومت کی جانب سے سستی اورنااہلی کے تاثر کو زائل کرتے ہوئے مکمل غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے تمام کام آئین و قانون کی حدود میں رہ کر کرنے کا اعادہ کیا۔
عدلیہ کے ریمارکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیب کے نام سے وہ لوگ چھپ جاتے ہیں جن کے پاس ثبوت ہوتے ہیں او رکسی انکوائری کی تکمیل ان کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی اسی لئے نیب کا نام اس قدر دہشت کی علامت بن چکا ہے کہ بعض معاملات میں لوگوں کے خوف کی وجہ سے پیشرفت نہیں ہوپاتی۔حالانکہ نیب کا ادارہ موجودہ چیئرمین کی سربراہی میں پہلی بار حقیقی احتساب کررہا ہے اور کسی بھی دباؤ کے بغیر بالکل غیر جانبدار اور شفاف اقدامات کئے جارہے ہیں۔لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر بلاول زرداری کو اس بناء پر ریلیف دیا گیا ہے کہ وہ اس وقت بچہ تھا جب مبینہ جرائم ہورہے تھے اور اس کا براہ راست ان سے کوئی تعلق نہیں بنتا تو پھر انور مجید کے بیٹے بھی تو اسی کے ہم عمر ہیں اور جب ان کے بڑے اگر جرائم کررہے تھے تو ان بچوں کا تو براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا تھا پھر انور مجید کے بیٹوں کو بھی ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان کی ذاتی طور پر ملک سے مخلصی اور عوام کی فلاح کے لئے محنت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن ان کی کابینہ میں ایسے وزراء ہیں جو اپنی شعلہ بیانی کے باعث مسلسل مشکلات پیدا کررہے ہیں اور یہ تاثردے رہے ہیں کہ ان کی ذاتی خواہشات پر تمام ادارے کام کریں اور آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر ان کی انگلیوںکے اشاروں پر نظام سلطنت چلنا چاہئے۔ اسی لئے تو نیب سے شکایت کرکے وفاقی وزیر نے زرداری اور فریال تالپور کو گرفتارنہ کرنے کا شکوہ کیا اور چاہا کہ وہ صرف اشارہ کریںاور تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ایک صوبے میں حکمراں جماعت کے سربراہ کو نیب گرفتار کرلے ۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں فیصل واوڈا نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایک مجرم تقریر کرکے چلا گیا ہے۔ وفاقی وزیر کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مجرم اور ملزم میں فرق ہوتا ہے۔ شہباز شریف پر ابھی جرم ثابت نہیں ہوا اور تحقیقات جاری ہیں اسی لئے یہ زبان ہی حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وفاق و پنجاب میںحکومتیںاتحادیوں کے رحم و کرم پر قائم ہیں او رزیادہ دلیرانہ فیصلے مشاورت کے بغیر ممکن نہیں اسی لئے اپوزیشن کو بار بار طیش نہ دلائیں کہیں وہ جہانگیر ترین طرز کی اکثریت کے لئے دن رات کوشاں ہوگئے تو کوئی بعید نہیں وفاق اور پنجاب میں حکومتوں میں تبدیلی آجائے۔وفاقی وزیر مراد سعیدنے اسمبلی میں تقریر میں دعویٰ کیا کہ مجھ سے 7افراد این آر او مانگ رہے ہیں ان میں سے ایک اسمبلی میں موجود ہے۔ اس طرح کے دعوے کے بعد اپوزیشن کے رہنمابار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ سے کس نے این آر او مانگا ہے؟ آپ اس کا نام بتائیں لیکن اس مطالبے کا جواب نہیں دیا جاتا۔ اس طرح کی شعلہ بیانی درست نہیں ہے۔کرپشن کے خلاف جس طرح زور دیکر حکمراں جماعت ہمیشہ بات کرتی چلی آرہی ہے اب ا ن کی حکومت کو چھ ماہ ہوگئے ہیں اور مجھے ہر کالم میں اس مطالبے کا دہرانا پڑتا ہے کہ کرپشن اور ملاوٹ پر کاری ضرب لگانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اپوزیشن سے ملکر کرپشن و ملاوٹ پر سزائے موت کا قانون منظور کرے بے شک اس کا اطلاق مستقبل میں ہونیوالے جرائم پر کیا جائے اور ماضی میں ہونیوالے ان جرائم پر موجودہ قوانین کے مطابق سزائیں ملیں اور نیب میں بے شک ماضی کے جرائم پر پلی بارگین کی جائے لیکن مستقبل میں ان جرائم کا خاتمہ یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اگر اپوزیشن کسی وجہ سے بھی کرپشن و ملاوٹ پر سزائے موت کے قانون کی منظوری میں تعاون نہیں کرتی تو حکومت تو کم از کم اس قانون کی منظوری کی کوشش کرے اس کوشش کے بعد حکمراں جماعت اپنا فرض ادا کردے گی اور قوم کے سامنے ہوگا کہ حکمراں جماعت عملی طور پر کرپشن و ملاوٹ کے خلاف آخری حد تک کوشش کرچکی ہے۔ لیکن اس معاملے میں خاموشی و تاخیر سے زبانی جمع خرچ پر اب لوگوں کو ہنسی آتی ہے کہ کرپشن کرپشن کا راگ الاپنے والے اپنی حکومت میں اس پر مستقبل میںہمیشہ کے لئے کاری ضرب لگانے میں کیوں سوچ بچارکا شکار ہیں؟
گزشتہ چھ ماہ میں حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے اور حکومت کا قیام عوام و مملکت کی خدمت کے لئے عمل میں آتا ہے اسی لئے وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ حالات و معاملات کو اس طرف ہی لیکر جائیں جہاں حکومت حقیقی طورپر عوام کو ریلیف دے سکے او راپنے منشورپرعملدرآمد کرسکے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی وزراء کوشعلہ بیانی کے بجائے کارکردگی دکھانے اور عوام کو ان کی فلاح کے منصوبوں کے متعلق بریف کرنے کا پابند کیا جائے او رالزام تراشی تو ہمیشہ اپوزیشن کرتی ہے لیکن پہلی بار دیکھا ہے کہ وزراء کے بیانات ایسے آتے ہیں جیسے یہ خود اپوزیشن میں ہوں۔حکومت کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ آیا موجودہ حالات میں کیا تبدیلی لائی جائے جس سے معیشت مستحکم ہو اور حقیقی طورپر عوام کے ریلیف کے اقدامات ممکن بنائے جاسکیں۔ اگر عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا اور ملکی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی تو پھر حکمراں جماعت کو اس کا اعتراف کرکے کوئی فیصلہ لینا چاہئے اور اداروں پر تنقید یا ان کے اختیارات میں مداخلت کی بے جا کوشش یا ذاتی خواہشات پر آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر اقدامات کرنے کی کوشش کسی صورت بھی حکومت کے لئے نیک نامی کا باعث نہیں ہوگی۔
چیف جسٹس ثاقب نثاراپنی آئینی مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اور انہوں نے انصاف و قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں اور انہوں نے اپنے فیصلوں میں انصاف کے قیام کو یقینی بنایا اور امید ہے کہ نئے آنیوالے چیف جسٹس صاحب بھی انہی کی طرح انصاف کا قیام یقینی بنائیں گے اور خصوصاً عدلیہ میں نچلی سطح پر موجود کرپشن و فیصلوں میں تاخیر کا خاتمہ یقینی بنائیں گے۔