سرائیکی سیکرٹریٹ؟ امکانات اور مضمرات
لڑکپن میں لطیفہ سنا تھا ایک دیہاتی نے ’’اْچی لمی کھجور‘‘ پر پکی کھجوروں کے سرخ گوشے دیکھے تو اُسکے منہ میں پانی بھر آیا ، اشتہا بڑھی تو وہ بے اختیار انکی طرف لپکا اوپر پہنچ کر اس نے کھجوریں کھائیں جب پیٹ بھر گیا، اترنے کیلئے نیچے دیکھا تو اُسے ’’بھوانی‘‘ آ گئی سارے وجود میں لرزہ سا طاری ہوا، اور اُس نے رونا شروع کر دیا۔ گریہ کے درمیان اُس نے آسمان کی طرف دیکھا اور منت مانی ’’اگر میں بحفاظت نیچے اُتر گیا تو اُونٹ کی قربانی دوں گا۔‘‘ جب ایک چوتھائی نیچے اُترا تو اُس نے سوچا جلدی میں اتنے قیمتی جانور کی منت مانی ہے۔ بولا اونٹ نہیں گائے کی قربانی دوںگا۔ جب آدھا فاصلہ طے کیا تو پھر وہی سوچ غالب آ گئی گائے دودھ دیتی ہے بچے دودھ کہاں سے پئیں گے؟ بوقت ضرورت ہل میں بھی جوت لیتے ہیں، بولا پروردگار! گائے نہیں بکری کی قربانی دوں گا مزید نیچے اُترا توبکری سے مرغی پر آگیا جب زمین پر قدم رکھا تو ایک مچھر اُس کے بازو پر آبیٹھا اُس نے ہاتھ مار کر اسے مار دیا سرخ خون کا دھبہ دیکھ کر بولا۔ ’’واہ سوہنیا ربا ! قربانی دا بندوبست بھی خود کردتا اِی!یہ لطیفہ ہمیں حکومتی اعلان سے یاد آیا ہے۔ دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ نہیں بن سکتا اس لئے سرائیکی سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا جائیگا جب مطلوبہ اکثریت حاصل ہو گئی تو وعدہ ایفا ہو گا الیکشن سے پہلے تحریک انصاف نے پکا وعدہ کیا تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے اُس خطے کے لوگ نوید مسرت سنیں گے۔
جب بھی الیکشن نزدیک آتے ہیں وعدوں کی بہار آ جاتی ہے۔ آسمان سے تارے توڑنے کی باتیں ہوتی ہیں پسے ہوئے عوام کو اس زندگی میں ہی من و سلوٰی کھلانے کا اعلان ہوتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ گو پرانا ہو گیا ہے لیکن اسے بھی ریشمی غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ سرائیکی صوبہ کا نعرہ گزشہ الیکشن میں بھی لگا تھا، دُرانی اینڈ کمپنی اس لئے کامیاب نہ ہو سکی کہ کئی برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد انہیں ہوش آیاتھا پھر ہر پارٹی نے بھی کم و بیش یہی راگ الاپنا شروع کر دیا۔ اس مرتبہ اس کے محرکین نے سائنٹیفک بنیادوں پر کام کیا خطے کے تمام Electables کو ہمنوا بنا لیا۔ یہ لوگ ہیں جو سیاست کے سُقراط ہیں ہوا کا رخ پہچاننے میں کبھی غلطی نہیں کرتے چڑھتے ہوئے سورج کی سنہری کرنوں میں غسل آفتابی کرتے ہیں، ڈوبتی آگ کو سلام کرنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ ایسا وعدہ کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہ تھا نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی! جب دو تہائی اکثریت ہی نہیں ہوگی تو صوبہ کیسے بن پائے گا۔؟ الٹا الزام انکے سر جائیگا جنہوں نے اس ’’ میجک فگر‘‘ کے حصول میں کوتاہی برتی۔ حکمرانوں کو علم نہیں تھا کہ شریف برادران سیاست کے کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بھی ویسے ہی تو نہیں لگتا انہوں نے حکومتی Bluff پکڑ لیا اور اُس حد تک حکومت کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا گویا دو تہائی اکثریت کا عذر لنگ باقی نہیں رہا تحریک انصاف کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے دوسرائیکی صوبوں کا مطالبہ کر دیا۔ بہاولپور اور ملتان۔ اب تحریک انصاف لاکھ کہتی رہے کہ یہ شرارتی لوگ ہیں یہ سپورٹ حُب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ ہے۔ ان کا مقصد محض حکومت کو زچ کرنا ہے۔یہ دل سے تقسیم پنجاب نہیں چاہتے بالفرض یہ استدلال درست بھی ہے تو کون مانے گا؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ، پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔ دونوں پارٹیاں کہتی ہیں حضورایک مرتبہ اسمبلی میں ریزولیوشن تولائیے پھر دیکھیں ہم دامے، درمے، قدمے، سخنے آپ کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں!
ہم نے اپنے سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ تحریک کو احساس ہو گیا ہے کہ ایسا کرنے سے سنٹرل پنجاب میں انکی حکومت کسی طرح بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ جو ہلکی سی اکثریت ہے وہ جنوبی پنجاب کے ممبران کے بل بوتے پر ہے۔ ہم حکومت کو ایک بار پھر تنبیہ کر رہے ہیں کہ اُس صورت میں جنوبی پنجاب میں بھی حکومت قائم نہیں رہ سکتی ملتان اور بہاولپور کا جھگڑا کسی طور بھی حل ہونیوالا نہیں ہے اگر ملتان صدرمقام ٹھہرتا ہے تو بہاولپور کے تمام ممبران اسمبلی کنارہ کشی کر لیں گے۔ خسروبختیار ہو یا کوئی اور شہسوار، بے بس ہو جائینگے ، بھڑوں کے چھتے میں کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ اسی طرح بہاولپور کوفوقیت دینے سے ملتان روٹھ جائیگا۔ مغلوں کے زمانے میں مشہور تھا کہ جس کا ملتان مضبوط ہے اس کا دلی مضبوط ہے۔ فی زمانہ ملتان ناراض ہو تو لاہور کمزور پڑ جائیگا گویا ملتان کی سیاسی حیثیت مسلمہ ہے۔ بالفرض تحریک پس و پیش کرے یا لیت و لعل سے کام لے تو بھی اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان دو متحارب پارٹیوں کا کوئی ممبر دو سرائیکی صوبوں کی تحریک اسمبلی میں نہیں لائے گا؟ یہ ضرور ہو گا اس وقت شریف برادران چونکہ مقدمات کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور منقار زیرپرہیں اسی طرح زرداری کے گرد بھی گھیرا خاصا تنگ ہو گیا ہے اس لئے ہو سکتا ہے اس میں کچھ تاخیر ہوجائے، لیکن یہ ہونا ضرور ہے!
غالباً اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے حکومت کے کسی بزرجمہر نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ فی الحال ’’لولی پاپ‘‘ سے کام لیا جائے یعنی منزل کی جگہ نشان منزل دکھا دیا جائے۔ سرائیکی سیکرٹریٹ کا قیام کا اعلان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے باالفاظ دگر حکومت اونٹ سے گائے کی قربانی تک پہنچ گئی ہے۔ گویہ نعرے کی حد تک ایک Clever Move ہے لیکن اس کا قیام بھی بوجوہ ممکن نظر نہیں آتا۔چیف سیکرٹری اور آئی جی بھیجنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام محکمہ جات از قسم، زراعت، صحت، جنگلات، تعلیم، حیوانات، اطلاعات، لیبر، صنعت، لوکل گورنمنٹ وغیرہ کے سیکرٹری بمعہ عملہ وہاں موجود ہوں ۔ چیف سیکرٹری کوئی درخواست انہیں ریفر کرسکتا ہے ازخود حکم نہیں دے سکتا۔ باالفاظ دگر درخواست گزار کو بہرحال لاہور آنا پڑے گا اس طرح دہلیز پرانصاف پہنچانے کا مفہوم مفقود ہو جائے گا لوگ اپنے حلقے کے ممبران اسمبلی کو آ کر ملتے ہیں جو سیکرٹریٹ جا کر متعلقہ محکمے سے انکے مسائل حل کرواتے ہیں اب ذرا تصور فرمائیں۔ ممبر اسمبلی لاہور میں بیٹھا ہے چیف سیکرٹری ملتان بہاولپور میں براجمان ہے اُس صورت میں مسئلہ حل کیسے ہوگا۔ بازوؤں سے کان لمبے ہوجائینگے!
بالفرض جون تک حکومت تمام محکموں کو جنوب میں شفٹ کر دیتی ہے تو اُس صورت میں سینکڑوں دفاتر، ہزاروں مکانات کہاں سے دستیاب ہوں گے؟ اربوں روپے کا منصوبہ ہو گا جو پانچ سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ اتنی خطیر رقم کہاں سے مختص ہو گی؟ خسارے کا بجٹ تو ویسے ہی ہچکیاں لے رہا ہے۔ اتنے سارے سرکاری افسر یا اہلکار کہاں سے آئیںگے؟ نئی بھرتیاں کرنا پڑیں گی۔
سُرخی پاؤڈر یا پوچا پوچی سے یہ مسئلہ حل ہونے والانہیں۔ دوا بیماری سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوگی۔ سیکرٹریٹ کے قیام سے بھی وہی مسئلہ سر اٹھائے گا جو صوبوں کے قیام کی صورت میں پیش آئیگا میں نے جنوبی پنجاب میں کئی سال سروس کی ہے۔ دس سال تک مختلف اضلاع میں ڈپٹی کمشنر، کمشنر رہا ہوں ۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کافی ممبران حکومت کا ساتھ چھوڑ جائینگے۔ صوبہ بنانے کا کریڈٹ، ’’ڈس کریڈٹ‘‘ میں بدل جائیگا۔ بحث کی خاطر اگر بہاولپور اور ملتان دو الگ صوبے بن جاتے ہیں توپھرمرکزی پنجاب میں مخالفت کی شدید لہر اُٹھے گی پراپیگنڈا ہوگا ایک جیتے جاگتے ہرے صوبے کے تو آپ نے حصے بخرے کر ڈالے ہیں لیکن خیبر پی کے، سندھ اور بلوچستان سالم کھڑے ہیں، کیا پنجاب یتیم ہو گیا ہے؟ بے کس و بے نوا۔ پوٹھوہار صوبے کیلئے تحریک کو روکنا مشکل ہو جائیگا۔ مرکزی پنجاب میں ن لیگ کے ہاتھ مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ پنجاب کو ہاتھ میں رکھنا خان صاحب کیلئے از حد ضروری ہے اسکے بغیرمرکزی حکومت چلانا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائیگا۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ (It is a million dollar question) سنگلاخ چٹانوں اورسمندر میں گھری ہوئی حکومت کو فہم و فراست اورحکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔ ان کے پاس کم از کم ایک جواز تو ہے۔ سابقہ حکومت خزانہ خالی کر گئی ہے۔ صوبے کے قیام کیلئے خطیر رقم چاہیے بس ایک دفعہ خزانہ بھر جائے صوبہ بھی بن جائیگا۔ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے پہلے خان صاحب یقین کریں لوگ پانچ سال انتظار تو کر سکتے ہیں ۔دو سرائیکی صوبوں کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔