ممتا کی للکار اور مودی کا فرار
بنگال’ مودی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مودی مخالف ملین مارچ نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ کانگریس سمیت 23 سیاسی جماعتیں دیہی بنگال سے لاکھوں کارکن لے کر میدان میں ہیں۔ بھارت میں انتخابی دنگل جوں جوں قریب آرہا ہے، ویسے ویسے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقابل اتحاد بھی تشکیل پانے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کی شدید مخالف علاقائی جماعتیں، اب مودی کے خلاف ہاتھ ملانے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور باہوجن سماج وادی پارٹی (بی ایس پی) مودی سرکار کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے میں پیش پیش ہیں۔وزیراعلیٰ ممتا بنر جی’ مودی کو عوام دشمن قراریتے ہوئے للکار رہی ہیں کہ میدان میں آؤ’ دم ہے تو مقابلہ کرو، ممتا چتاؤنی دے رہی ہیں کہ مودی سرکار آخری سانس لے رہی ہے علاقائی جماعتیں متحد ہوکر نفرت کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیں۔ بھارت کے 80 فیصد ہندوؤں کے بعد 14 فیصد مسلمان دوسرا بڑا اقلیتی گروہ ہیں مودی کے تکبر کا یہ عالم تھا کہ گذشتہ عام انتخابات میں اتر پردیش میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ دینا گوارا نہ کیا تھا اور اپنے سے بھی بڑے پاگل یوگی ادتیاناتھ کو وزیراعلیٰ بنادیا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندو بھی ’’رام راج‘‘ کے نعرے لگانے والے پاگلوں سے تنگ اور ستائے ہوئے ہیں یہ مسلمان اور سکھوں سے مل کر کل ایک ارب 30 کروڑ کا تین چوتھائی 85 کروڑ بنتے ہیں جو ووٹ کی پرچی کے ذریعے انتقام لینے کے لئے میدان میں ہے۔گاؤ رکھشا کے نام پر ظلم و بربریت کا گرم بازار بھی عام ووٹروں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ مودی اور گاؤماتا کے پجاری پسپا ہو رہے ہیں۔ نفرت کا کھیل دم توڑ رہا ہے۔ مودی ڈھلوان کے سفر پر چل پڑے ہیں۔ باہوجن سماج پارٹی بھارت کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت کی تشکیل کا بنیادی نصب العین اکثریت کی نمائندگی تھا، باہوجن کا مطلب ’اکثریتی عوام‘ ہیں۔ ان میں نچلی ذات کے ہندو، قبائل اور پسماندہ طبقات کی ذاتیں ہیں۔ ان میں مذہبی اقلیتوں کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ اس طرح یہ سب مل کر بھارت کی آبادی کا 85 فیصد بن جاتے ہیں۔
بھارت میں 6000 مختلف ذاتیں موجود ہیں۔ یہ جماعت نظریاتی طورپر خود کو گوتم بدھ، بی آر امبیدکر‘ مہاتما جیوتی با پھولے، نریانا گرو، پریار ای وی راماسامے اور چہاتراپتی شاہوجی مہاراج کے نظریات کے زیر اثر قرار دیتی ہے۔ 1984ء میں کانشی رام نے اسے قائم کیاتھا۔ اس کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ سماج وادی پارٹی سوشلسٹ پارٹی تصور ہوتی ہے۔ یہ اترپردیش ریاست کی سطح پر اثر و نفوذ رکھنے والی جماعت ہے جس کا ہیڈکوارٹر نئی دہلی میں ہے۔ یہ جماعت ’جنتا دل‘ یعنی عوامی لیگ کے حصے بخرے ہونے سے وجود میں آئی تھی۔ سابق وزیراعلی اتر پردیش آکھیلاش یادیو اس کی قیادت کرتے ہیں جنہیں یکم جنوری 2017ئ کو صدر منتخب کیاگیا تھا۔ اس کا انتخابی نشان سائیکل ہے۔ یہ دونوں جماعتیں بھارتی شمالی ریاست اتر پردیش میں کلیدی کھلاڑی ہیں۔ یہ ریاست بھارتی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست شمار ہوتی ہے۔ جہاں کی آبادی بائیس کروڑ ہے۔
اتر پردیش کو بھارت کے قومی انتخابات کا مرغ بادنما سمجھا جاتا ہے۔ یہاں چلنے والی ہوائیں اور رجحانات آنے والے سیاسی منظرنامے کا رْخ دکھا دیتی ہیں۔ اپریل اور مئی 2019ء انتخابات متوقع ہیں۔
حالیہ انتخابی جائزے بتا رہے ہیں کہ نریندرمودی کی بی جے پی اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ آکھیلاش یادیو کہہ چکے ہیں کہ ان کا اتحاد بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لئے موثرحکمت عملی مرتب کریگا۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی ملک کو تقسیم کر رہی ہے، یہ خوف اور نفرت کی سوداگر اور اسے مختلف قومیتوں میں بڑھاوا دے رہی ہے۔ باہوجن سماج وادی پارٹی کی سربراہ اور نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی مقبول رہنما مایا وتی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ گفتگو کی جو اس امر کا اعلان تھا کہ بھارت کی اکثریت بی جے پی کے نفرت کے ایجنڈے کیخلاف اب نکل کھڑی ہوئی ہے۔
دونوں جماعتوں کا یہ اتحاد ریاست کی کل 80 نشستوں میں سے اڑتیس اڑتیس سیٹوں پر الیکشن میں حصہ لے گا۔ ان جماعتوں نے مرکزی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کو ساتھ نہیں ملایا۔ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی شدید ترین مخالف تھیں۔ ان جماعتوں نے 1993ء میں مل کر اترپردیش حکومت بنائی تھی۔ 1995ء میں یہ تعلقات اس وقت خراب ہوگئے تھے جب کماری مایا وتی نے بیان دیا کہ ان پر سماج وادی پارٹی کے کارکنوں نے حملہ کیا ہے۔ بی جے پی پہلے ہی حالیہ انتخاب میں تین ریاستوں میں کانگریس کے ہاتھوں شکست کھاچکی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان سودھان شو تریویدی کا اس نئے اتحاد کی تشکیل پر تبصرہ تھا کہ ہم پراعتماد ہیں۔
اگر تمام جماعتیں بھی مل جائیں، اس کے باوجود ہم جیتیں گے۔ وزیراعظم مودی نے دس ہزار کارکنوں کا کنونشن منعقد کیا اور کہاکہ ہمارے دور حکومت میں ہمارے خلاف کرپشن کا کوئی ایک الزام نہیں لگ سکا۔ ہم سب سے مساوی سلوک کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ملک کو ترقی کی راہ پر لے کر گئے ہیں۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرچہ اب بھی ملک گیر سطح پر حمایت مودی کی نظرآتی ہے لیکن اس مرتبہ ان کے لئے انتخاب میں جیتنا 2014ء کی طرح آسان نہیں۔ 2014ء میں ملنے والی واضح اکثریت کی بنیاد پر بھارتی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ مودی کم ازکم دو مدت کے لئے تو اقتدار میں رہیں گے۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی 29 میں سے 21 ریاستوں میں حکومت میں ہیں۔ مودی کے الیکشن سے پہلے بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے پاس آٹھ ریاستوں میں حکمرانی تھی۔ بی جے پی کی روائیتی طاقت کے مراکز آٹھ ریاستیں ہیں جن میں بہار، چھتیس گڑھ، گجرات، جھاڑکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، راجستھان اور اترپردیش شامل ہیں۔ مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ بخوبی جانتے ہیں کہ برسراقتدار جماعت کی دوبارہ جیت آسان کام نہیں اور حکومت میں ہونے کی وجہ سے عوام کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کو دوبارہ پوری قوت سے جیتنا شاید ممکن نہیں ہوگا، اسی لئے انہوں نے نئی ریاستوں کی طرف توجہ دی اور وہاں بی جے پی کو پھیلانے اور اثرونفوذ پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرلی۔ انہوں نے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کو ہدف بنایا ہے۔
بی جے پی اب آندھرا پردیش، اوڑیسہ، تامل ناڈو، تلنگانہ اور مغربی بنگال پر توجہ مبذول کئے ہوئے ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ جن دیگر ریاستوں سے اس کی نشستیں کم ہوں گی، وہ دیگر ریاستوں سے جیت کر اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ پانچ ریاستیں مل کر پارلیمان میں 144نشستیں بنتی ہیں۔ گوا، منی پور اور میگھالیہ کی ریاستوں میں بی جے پی حالیہ ریاستی انتخابات میں واحد اکثریتی جماعت بن کر ابھرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاکر بی جے پی نے ان ریاستوں میں اپنی حکومت بنالی۔بی جے پی جس انداز میں کام کر رہی ہے اس کی وجہ سے اس کی اتحادی جماعتوں میں بھی تشویش بڑھ رہی ہے۔ شیوسینا پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ وہ 2019ء کے انتخابات اکیلے لڑے گی۔ یہ علیحدگی آندھراپردیش میں خصوصی درجے کی حیثیت نہ ملنے کے ردعمل میں کی گئی ہے۔بی جے پی کی کامیابی کی ایک وجہ اپوزیشن کا تتر بتر ہونا ہے۔ کانگریس کے حوالے سے توقع کی جارہی ہے کہ آمدہ انتخابات میں اس کی نشستوں میں اضافہ ہوگا۔ البتہ بھارتی میڈیا میں آنے والی بعض اطلاعات میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ خود کانگرسی رہنما نجی محافل میں یہ کہتے سنائی دئیے ہیں کہ تین ہندسوں میں کانگریس کی نشستوں کی تعداد انتخاب میں سوچنا مبالغہ ہوگا۔البتہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی کو جس حریف سے اصل میں ڈرنے کی ضرورت ہے وہ اس کے ’’اچھے دن‘‘ کے عوام سے کئے ہوئے وعدے ہیں۔ ان کا وعدہ تھا کہ بھارتی معیشت کو وہ دوبارہ سے زندہ کردیں گے لیکن یہ توقعات پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ انہوں نے بھی ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کئے تھے۔ٹیکس کے امور پر بھی عوام میں ان کے خلاف ردعمل پایا جاتا ہے۔ مودی نے غریب عوام کے لئے کچھ سکیموں کا اعلان کیا ہے لیکن یہ اقدام ان کی سیاسی زندگی بچانے کی کوشش کا حصہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مودی کا وعدہ تھا کہ 2022ء تک کسانوں کی آمدن دوگنا کردیں گے لیکن درحقیقت بھارتی تجزیہ نگاروں کے نزدیک کاشتکاروںاور کسانوں کا بْرا حال ہے، ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ خود گجرات کے انتخاب میں بی جے پی کو اگرچہ اکثریت تو مل گئی لیکن اسے دیہی علاقوں میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جہاں کانگریس نے سیاسی فائدہ اٹھایا۔ کسانوں نے حکومتی اقدامات کے خلاف ممبئی میں مظاہرہ بھی کیا۔ توقع کی جارہی ہے کہ بی جے پی ایک بار پھر اپنے ہندوتوا کے سانپ کو سیاسی پٹارے سے نکال کر اس کے زہر کو اپنی کامیابی کا ذریعہ بنائے گی۔ بھارت میں نفرت ہار رہی ہے سیکولر ازم جیت رہا ہے مودی کی نفرت کی سیاست دم توڑ رہی ہے ڈھلوان کا سفر جاری ہے پاتال کی گہرائیاں مودی اور یوگی کو نگلنے کے لئے پکار رہی ہیں۔