منگل ‘ 15؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 22 ؍ جنوری 2019ء
سی پیک کے رازوں سے پردہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا
تفصیلات سامنے لائیں گے: خسرو بختیار
ہمارے ہاں نجانے کیوں ہر ایک رازوں سے پردہ اٹھانے کیلئے بے چین رہتا ہے۔اب یہ بات قابل غور ہے کہ آج تک ایسا کوئی راز بے نقاب نہیں ہو سکا، جس پر پردہ پڑا ہو۔ آج کل ہمارے وزیر باتدبیر خسرو بختیار بھی سی پیک کے نجانے کون سے رازوں سے پردہ اٹھانے کیلئے بے قرار نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ اب انکی اپنی حکومت ہے وہ تو ابھی تک جنوبی صوبے کے حوالے سے اپنے راز و نیاز بے نقاب نہیں کر سکے۔ اب انہیں سی پیک کے نام سے نیا پردے دار معاہدہ نظر آ گیا ہے۔ وہ اسے باہر نکالنے کے درپے ہیں۔ پی ٹی آئی والے پہلے ہی سی پیک کے حوالے سے اپنے نت نئے بیانات کی وجہ سے اس اہم منصوبے پر شبہات کی گرد پھیلاتے رہے ہیں۔ اب وزیر موصوف کے اس بیان کے بعد کہیں چین والے نہ بدک جائیں۔ ایک طرف ہم چین سے دامے درمے قدمے سخنے ہر قسم کی امداد صدقات خیرات کی بھرپور اپیلیں کرتے ہیں تاکہ ہماری معیشت سنبھل سکے۔دوسری طرف ہم اس کے ساتھ کئے گئے سب سے بڑے اور ہمارے لئے نہایت اہم منصوبے کے حوالے سے شکوک پھیلا رہے ہیں۔ یہ عمل نادان دوستوں کی وجہ سے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے خسرو بختیار اپنا شوق پورا کر لیں۔ دیکھتے ہیں ان کی پٹاری سے کیا برآمد ہوتا ہے۔
٭٭………٭٭
بھارتی حکومت نے ذاکر نائیک کی مزید 16 کروڑ کی جائیداد ضبط کر لی
بھارت کو ممتاز مسلم سکالرز اور مبلغ ذاکر نائیک سے اصل شکایت یہ ہے کہ وہ پورے بھارت میں سب سے زیادہ نرم خو اور متعدل مزاج مسلم مذہبی سکالر ہے جو کھلے عام تمام ادیان کے حوالے سے عوام الناس کو مخاطب کرتا ہے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اب اسلام قبول کرنا یا نہیں کرنا‘ لوگوں کا ذاتی فعل ہے۔ ذاکر نائیک کی وجہ سے ہزاروں غیر مسلم کلمہ گو ہو رہے تھے۔ اس پر بھارتی حکومت وہ بھی مہاشے نریندر مودی جیسے انتہا پسند کی جو خود بی جے پی کے پلیٹ فارم سے ہندو توا پھیلاتے ہیں مصروف ہے یہ سب کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ سو بھارتی حکومت نے الٹا ان پر تعصب پھیلانے کا الزام لگا دیا اور ان کے پچاس کروڑ کے اثاثے جو بنک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی شکل میں تھی ضبط کر لئے تاکہ ان کی تنظیم کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہی کام وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا والے بھی کر رہے ہیں، وہ کھلم کھلا مسلم دشمنی کے پرچارکر ہیں۔ مسجدوں کو گرا رہے ہیں۔ گائے کے نام پر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں، مگر مودی سرکار ان کے خلاف حکومت کوئی ایکشن نہیں لیتی۔ یہ تو وہی ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ والی بات ہے۔ جس بے رحمی سے مسلمانوں کی جائیدادوں پرقبضہ کیا جا رہا ہے وہ بھارتی حکمرانوں کی مسلم دشمنی کا عکاس ہے۔ شکرہے ڈاکٹر نائیک کو ’’کھل نائیک‘‘ بنانے کی بھارتی حکومت کی کوششیں رائیگاں گئیں۔ وہ ملائیشیا میں محفوظ ہیں ورنہ کیا معلوم یہ ہندو توا کی حامی دہشت گرد تنظیمیں انہیں دہشت گرد قرار دے کر تہاڑ جیل یا اگلے جہاں پہنچا چکی ہوتیں۔
٭٭………٭٭
پیپکو کے 100 طاقتور افسروں نے اثاثوں کی تفصیلات جمع نہیں کرائیں
طاقتور کوئی بھی ہو، بیورو کریٹ، سیاستدان ہو یا اشرافیہ جو مرضی کر لیں ان کی سوئی وہیں اٹکی رہتی ہے جسے وہ درست سمجھتے ہیں۔ پیپکو کے سو طاقتور افسر بھی اسی فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ وہ بھی بااثر طبقات کی طرح اپنے اثاثے ظاہر کرنے سے باغی ہیں۔ سوال ان کا انکار نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومتی رٹ کہاں ہے کہ سرکاری افسر احکامات ماننے سے انکاری ہیں اور حکومت تماشہ دیکھ رہی ہے۔ یہ انکار نہ ہوا سٹیج ڈرامے میں اداکاری کے نام پر اچھل کود کرنے والی ڈانسروں کی پرفارمنس ہو گئی، جس پر تماشبین سیٹیاں بجا کر تالیاں بجا کرداد دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ اس پرفارمنس پر ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے۔ اگر حکمران اشرافیہ اور بیورو کریٹس اپنے اثاثے ظاہر کرنے لگے تو انہیں یقین ہے ان کے خلاف لوگ اسی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے، جس طرح فلم بین زبردست گرما گرم کھڑکی توڑ رش لینے والی فلم کے اشتہاری بورڈ دیکھ کر جب فلم دیکھنے بیٹھتے ہیں تو آدھ گھنٹے بعد ہی سینما ہال کی کرسیاں توڑ کر سارے پوسٹر پھاڑ کر گالیاں بکتے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے باہر آتے ہیں۔ اس موقع پر سینما والوں کو جان بچانی مشکل ہو جاتی ہے۔ ہمارے اثاثے چھپانے والے بھی سینما مالکان کی طرح چالاک ہو چکے ہیں اور انہوں نے درجنوں مسلح گارڈز اس لئے رکھے ہوئے ہیں کہ کسی ردعمل کے بعد اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیں۔ انکے بچے باہر پڑھتے ہیں۔ جائیدادیں باہر ہوتی ہیں۔ بنک اکائونٹس بھی باہر ہوتے ہیں، یہ سب کچھ انہوں نے اسی رد عمل سے بچنے کیلئے کیا ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہمارے عوام فلم بینوں سے بھی گئے گزرے ہیں جو بوگس فلم کہہ لیں یا فرضی کارروائیاں دیکھ کر بھی چپ رہتے ہیں۔ احتجاج نہیں کرتے۔ یہی حال حکومتوں کا بھی ہو گیا ہے۔
٭٭………٭٭
ساہیوال واقعہ گڈ گورننس
کے جھوٹے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ ہے:بلاول
بات تو درست ہے مگر پہلے بلاول صاحب صوبہ سندھ کی گڈ گورننس کی بھی تو خبر لیں۔ جہاں سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے تمام رہنما اس وقت کرپشن کیسوں کے دفاع میں مصروف ہیں۔ انہیں یہ فرصت ہی نہیں مل رہی کہ صوبے کے حالات پر بھی توجہ دیں۔ اس وقت صوبے میں کیا ہو رہا ہے۔ سب کا بس ایک ہی مشن ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت اور وزیراعلیٰ اور وزراء کے خلاف کرپش منی لانڈرنگ و دیگر کیسوں کو اس طرح ٹھپ کر کے ختم کیا جائے۔ موت معصوم بچوں کی صحرائوں کی سرزمین جہاں کبھی پیلو کے درخت اپنی بہار دکھاتے تھے‘ مور ناچتے تھے۔ تھوڑی سی نمی بھی ملتی تو جنگلی پھول صحرا میں پریاں قطار اندر قطار کا منظر پیش کرتے تھے۔ وہاں آج زندگی کا حساب کتاب کھلنے سے پہلے ٹھپ کر رہی ہے۔ موت کا رقص کچھ اس انداز میں جاری ہے کہ اس موسم سرما میں 46 سے زیادہ بچے ماں کی گود کا سفر طے کرنے کی بجائے موت کی آغوش میں اس سفر پر روانہ ہوئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ کیا سندھ کے حکمرانوں کو اس بدنصیب تھر کی ذرا بھی پرواہ نہیں کہ وہاں موت ان ننھے منے پھولوں کو کھلنے سے پہلے کیوں مسل رہی ہے۔ کیا رہنمائوں کی کرپشن بچانا زیادہ اہم ہے۔ بلاول ، آصفہ اور بختاور تو نوجوان ہیں ان کا ماضی کی سیاست اور اس کے کرپشن سے کوئی لینا دینانہیں۔ وہ سیاست کی راہ سے ہٹ کر تھر کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو تو اپنی پڑی ہے وہ اپنی اور اپنے رہنمائوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس حالت میں تھر کے بچوں کی اموات پر کسی کی نظر کہاں پڑ سکتی ہے۔ جہاں بن کھلے مرجھانے والے پھولوں کی لمبی داستان رقم ہو رہی ہے۔