صوبائی وزراء کی پریس کانفرنس عذر گناہ بدتر از گناہ
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سانحۂ ساہیوال میں جاں بحق خلیل خاندان کیلئے دو کروڑ روپے مالی امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ بچوں کے تمام اخراجات بھی پنجاب حکومت اٹھائے گی۔ خلیل کے اہل خانہ کو تعلیم کے ساتھ میڈیکل کی بھی فری سہولت حاصل ہو گی، اس سلسلہ میں میں صوبائی وزراء راجہ محمد بشارت، میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید ا ور فیاض الحسن چوہان نے گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ آپریشن میں حصہ لینے والی سی ٹی ڈی ٹیم کے سپروائزر کو معطل کر کے ٹیم کے تمام ارکان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے ا ور پنجاب حکومت نے واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے جو 72 گھنٹے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ صوبائی وزراء نے سانحۂ ساہیوال کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کے اعلان کے ساتھ ہی کار ڈرائیور ذیشان کو دہشت گرد تنظیم داعش کا رکن قرار دیا اور کہا کہ پہلا فائر ذیشان نے ہی کیا تھا جس کے بعد سی ٹی ڈی کی ٹیم نے کار پر فائر کھولا۔ انکے بقول کار کے اندر سے دو خودکش جیکٹس ، آٹھ گرنیڈ اور پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں۔ انہوں نے اس بارے میں سی ٹی ڈی کی رپورٹ پر تکیہ کرتے ہوئے کہا کہ ذیشان کچھ عرصے سے داعش کے نیٹ ورک کے ساتھ کام کر رہا تھا جوملتان میں آئی ایس آئی کے ا فسران کے قتل ، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں دو پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔ وہی 13 جنوری کو دہشت گردوں کو ساہیوال لے کر گیا اور وقوعہ کے وقت بھی وہی سفید آلٹو گاڑی چلا رہا تھا جسے سپاٹ کیا گیا۔ صوبائی وزراء کے بقول جب ذیشان کے ساہیوال آپریشن میں مرنے کی خبر سوشل میڈیا پر چلی تو لاہورمیں اسکے گھر میں موجود اس کے دو ساتھی دہشت گرد وہاں سے فرار ہوئے ا ور گوجرانوالہ چلے گئے جہاں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا تو انہوں نے خودکش جیکٹوں کے ذریعے خود کو اڑا لیا۔ سی ٹی ڈی رپورٹ کی بنیاد پر صوبائی وزراء کی جانب سے پیش کیا گیا یہ موقف عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے جبکہ انہیں جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد ایسا بیان دینے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ انکے اس مؤقف کے بعد جے آئی ٹی کی غیر جانبداری پر کون یقین کریگا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی تو سانحۂ ساہیوال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ظالم قاتلوں کو سزاملنے کا یقین دلوا رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بچوں کی حالت دیکھ کر ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہیں مگر صوبائی وزراء محض سی ٹی ڈی کی رپورٹ پر تکیہ کرتے ہوئے اس ظالمانہ آپریشن پر سی ٹی ڈی کی صفائیاں پیش کررہے ہیں خود سی ٹی ڈی کی جانب سے آپریشن کے بارے میں کئی بار مؤقف تبدیل کیا گیاہے۔ پہلے گاڑی میں موجود تمام افراد کو اغواء کار اور انہیں ہلاک کرنے کے بعد انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا۔ اگر وہ تمام افراد بھی دہشت گرد ہوتے تو گاڑی روکنے کے بعد انہیں زندہ گرفتار کرنے کے بجائے گولیوں سے بھوننے کی کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ مزید یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ صوبائی وزراء نے سی ٹی ڈی کے تمام ارکان کو حراست میں لینے کا اعلان کیا جبکہ وقوعہ کی ایف آئی آر پویس تھانہ یوسف والا میں 16 نامعلوم افراد کیخلاف درج کی گئی۔ اس سے سی ٹی ڈی کے ایما پر اختیار کئے گئے صوبائی وزراء کے مؤقف میں تضاد بیانی کی واضح عکاسی ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی وزراء کو ہنگامی طورپر مشترکہ پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد ان کا پیش کردہ مؤقف جے آئی ٹی کے تفتیش کے عمل کو متاثر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ کسی کے تحفظ کا نہیں‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا سوال ہے جس کے تقاضے پورے کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ سی ٹی ڈی کی اس سفاکانہ واردات سے جہاں انسانیت شرما رہی ہے‘ وہیں ہمارے معاشرے کی بھی پوری دنیا میں بھد اڑ رہی ہے۔ اس صورتحال میں انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ سی ٹی ڈی کے متعلقہ اہلکاروں کوحراست میں لیاگیا ہے تو قوم کو انکے چہرے دکھائے جائیں اور ایف آئی آر میں انہیں نامزد کرکے قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اگرحکومت کے ذمہ دار لوگ اس سانحہ پر قوم سے معذرت کر لیتے تو اس سانحہ کے تناظر میں حکومت کو جو سبکی اٹھانا پڑ رہی ہے‘ اس کی کبھی نوبت نہ آتی۔