افغان مسئلہ کے حل میں مثبت پیشرفت‘ فریقین اعتماد سازی کے اقدامات کریں
سینئر امریکی ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ وہ دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان کے دورے پر ہیں۔ سینیٹر گراہم نے افغانستان میں سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے حالیہ جاری کوششوں میں پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا۔ ملاقات کے بعد امریکی سینیٹر نے تجویز پیش کی کہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ فوری طور پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کریں یا کم از کم ٹیلیفون پر ضرور بات کر لیں اور انکی ملاقات مین افغان صدر اشرف غنی بھی شامل ہو سکیں تو افغان امن عمل کیلئے ایک سٹرٹیجک ویژن تشکیل پا سکتا ہے۔ پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد اتوار کی شام امریکی سفارت خانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر لنڈسے گراہم نے پاکستانی فوج اور وزیر اعظم عمران خان کی شاندار الفاظ میں تعریف کی اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے ملکر بہت متاثر ہوا ہوں۔ وزیراعظم خان کو ماضی میں طالبان سے مذاکرات کرنے کے مؤقف پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ انکا مؤقف بالکل درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی جا رہی ہے ایسا افغانستان کی جانب سے بھی کیا جانا چاہیے تھا‘ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان کا کردار اہم ہے۔ پاکستان امریکہ کو قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر لے گا تو تعلقات بہتری سے آگے بڑھیں گے۔ دہشتگردی مشترکہ خطرہ ہے اور اس کیلئے مشترکہ آپریشن گیم چینجر ہو گا۔ امریکی سینیٹر نے کہا کہ بغیر امن و استحکام کے افغانستان سے انخلاء نہیں ہونا چاہیے، افغانستان کے حوالے سے پاکستان نے جو کام گذشتہ اٹھارہ مہینوں میں کیا وہ اٹھارہ سالوں میں نہیں کیا۔ پاکستان کی امداد اس لئے کم کی کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ پاکستان سے متعلق بار بار پالیسی بدلنا ہماری غلطی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ طالبان طاقت کے زور پر افغانستان کو حاصل نہیں کر سکتے۔ نئی افغان نسل طالبان کے تاریک دور میںواپس نہیں جانا چاہتی۔ طالبان کو ہتھیار رکھنے ہوں گے اور افغان دستور کو تسلیم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے سابق فاٹا میں متاثر کن کام کیا ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی گئی ہیں۔ پاک فوج اور قوم کی قربانیوں کو عالمی میڈیا میں درست انداز میں اجاگر نہیں کیا گیا۔ ہماری تمام رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ پاک فوج پہلے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کی دراندازی روک دی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکہ استحکام کی ایک قوت ہے جو ابھی افغانستان میں موجود رہے۔ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے امریکہ سمیت تمام فریقین کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے۔
پاکستان عرصہ سے افغان مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیتا آیا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی ایسی تجاویز کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔ امریکہ کو بڑی دیر بعد زمینی حقائق کا ادراک ہوا۔ دیرآید درست آید۔ امریکہ افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہوگیا۔ امریکہ نے بات چیت کے امکانات کو رد کرکے جتنا عرصہ ضائع کیا‘ اب اتنی ہی تیزی سے بات چیت کے ذریعے افغان مسئلہ کے حل کیلئے کوشاں ہے۔ آسان طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی ماضی کے ناخوشگوار تجربے کو دہراتے ہوئے افغانستان کو اسکے حال پر چھوڑ کر رختِ سفر باندھ لیں مگر آج ماضی کے خون آشام تجربے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کو ایک دن افغانستان سے انخلاء کرنا ہے۔ وہ ایسا افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے اقدامات کو یقینی بنا کر کرے۔ وزیراعظم عمران خان اور سینٹر لنڈسے نے اپنے اپنے طور پریہ بات کی ہے۔
امریکہ کو باتوں کی سمجھ پل کے نیچے سے بہت سا پانی گزر جانے کے بعد آتی ہے۔ اب امریکہ عمران خان کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کی پذیرائی کررہا ہے جبکہ چند سال قبل امریکہ اس تجویز پر تنقید کرتا اور اسکے ہمخیال کچھ پاکستانی لیڈر عمران خان پر طالبان خان کی بھبتی کسا کرتے تھے۔ آج امریکہ کی طرف سے افغانستان میں عمل امن کیلئے پاکستان کے کردار کو سراہا اور دہشت گردی کیخلاف قربانیوں کا اعتراف کیا جارہا ہے۔ سینیٹر گراہم کہتے ہیں کہ پاک فوج نے جو کام 18 ماہ میں کیا‘ وہ اٹھارہ سال میں بھی نہیں ہوا۔ یہ امریکیوں کی سوچ ہو سکتی ہے۔ پاکستان نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جس طرح امریکہ کے شانہ بشانہ تھا آج تک پہلے دن کی طرح امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ اٹھارہ ماہ میں خطے یا پاکستان میں کیا کایا پلٹ تبدیل آئی جس نے پاکستان اور پاک فوج کو نئے عزم و ارادے کے ساتھ امریکی مفادات کیلئے کام کرنے پر مجبور کردیا؟
امریکہ کے حوالے سے پاکستان نے پالیسی نہیں بدلی‘ امریکہ نے بقول سینیٹر گراہم‘ پاکستان کے بارے میں بارہا پالیسی تبدیل کی۔ انکے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ نے نہ صرف پاکستان کے حوالے سے باربار پالیسی بدلی بلکہ پاکستان کی قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے بداعتمادی کا اظہار بھی کیا۔ جس سے تعلقات میں کشیدگی آئی اور امریکہ کی طرف سے یکطرفہ جارحانہ بیانات اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ پاکستان کی جانب سے ساتھ دینے سے امریکہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر یلغار‘ طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان پر قبضے میں کامیاب ہوا۔ ان کامیابیوں کو امریکہ برقرار نہ رکھ سکا تو اس کا پاکستان پر ملبہ کیسے ڈالا جا سکتا ہے۔ امریکہ کی ابتدائی کامیابیاں پاکستان کے کردار اور قربانیوں سے ممکن ہوئیں جبکہ امریکہ کی نوازشات بھارت پر ہونے لگیں۔ بادی النظر میں بھارت نے پاک امریکہ تعلقات پر حسد کے باعث لغو پراپیگنڈے اورامریکہ کو جھوٹی معلومات فراہم کرکے تعلقات بگاڑنے میں مذموم کردار ادا کیا۔ امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کو یقیناً ادراک تھا مگر ایک مخلص دوست کو رعونت آمیز رویے سے دور کردیا۔ ماضی میں بھی امریکہ طوطاچشمی سے کام لیتا رہا ہے۔ اب بھارت کے ایماء پر حالات اور تعلقات میں بگاڑ پوائنٹ آف نوریٹرن پر نظر آیا۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے ڈومور کے تقاضوں کے حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کیا اور حالات نے بھی کچھ ایسی کروٹ لی کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کے آپشن پر غور شروع کیا تو پاکستان سے تعاون کی درخواست کی۔ پاکستان نے اس درخواست پر طالبان اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا۔ آج امریکہ کو افغان دلدل سے نکالنے میں پاکستان کا مسیحائی کردار نظر آرہا ہے۔ گراہم لنڈسے سینیٹرز کے وفد کے ساتھ پاکستان میں موجود ہیں۔ زلمے خلیل زاد کی اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔ گزشتہ روز امریکی سینٹ حکام کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے وفد کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی ۔ اس موقع پرجنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کیلئے انتہائی اہم ہے، پاکستان رکاوٹوں کے باوجود علاقائی امن و استحکام کیلئے کوششیں جاری رکھے گا۔
چند سال قبل امریکہ نے پاکستان پر اعتماد کیا ہوتا تو اب تک افغان مسئلہ حل اور خطے میں استحکام پیدا ہوچکا ہوتا۔ بلاشبہ معروضی حالات میں طالبان طاقت کے زور پر افغانستان کا مکمل قبضہ واپس نہیں لے سکتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ بھی طالبان کا خاتمہ کرکے امن کی بحالی کی پوزیشن میں نہیں۔ طالبان کسی کے مطالبے پر سرنڈر بھی کرتے نظر نہیں آرہے۔ فریقین کی طرف سے طاقت کے استعمال سے مثبت نتائج برآمد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ افغان مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں جس پر تمام سٹیک ہولڈر سنجیدہ اور آمادہ ہیں۔ مذاکراتی عمل جاری ہے‘ اس دوران فریقین اعتماد سازی کے ممکنہ اقدامات کرنے کی کوشش کریں۔ ایک طرف مذاکراتی عمل جاری ہے‘ دوسری طرف افغان انتظامیہ طالبان کیخلاف اپریشنز میں تیزی لارہی ہے۔ اس سے مذاکراتی عمل سبوتاژ ہو سکتا ہے۔