وفاقی ادارے نے خیبر پختونخوا کا تعلیمی معیار بلوچستان اور فاٹا سے بھی پست قرار دیدیا
اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)نیشنل ایجوکیشن اسیسمنٹ سسٹم کی 2016 جائزہ رپورٹ یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ، وفاقی ادارے نے خیبر پختونخواہ کا تعلیمی معیار بلوچستان اور فاٹا سے بھی بدتر قرار دیدیا ،غیر ملکی اداروں سے امداد نہ لینے اور مکمل طور پر سرکاری اخراجات سے اسسمنٹ مکمل کرانے کا حکومتی دعویٰ بھی پورا نہ ہو سکا، ڈیٹا انالسزجیسے اہم کام کے لیے ادارے میں اہلیت موجود نہیں، یہ کام یونیسیف کے اخراجات سے کنسلٹنٹ کی زیر نگرانی کرایا گیا،نیشنل ایجوکیشن اسسمنٹ سسٹم (قومی نظام جائزہ تعلیم) کی2016رپورٹ بروز بدھ 24جنوری کو جاری کی جائے گی جبکہ وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے جوائنٹ
ایجوکیشنل ایڈوائزر پروفیسر رفیق طاہر نے کہاہے کہ میں نے ابھی رپورٹ کو پڑھا نہیں، اسے پڑھ کر ہی میں کوئی ردعمل دے سکتا ہوں۔’’نوائے وقت‘‘کوباوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے ذیلی ادارے، نیشنل ایجوکیشن اسسمنٹ سسٹم (قومی نظام جائزہ تعلیم) کی2016رپورٹ کا مقصد محض حکمرانوں کی خوشنودی کے حصول کے لیے پنجاب اور مرکزی حکومت کی کارکردگی کو بہتر ظاہر کرنا اور اپنے سیاسی مخالفین سندھ اور خیبر پخونخواہ کی کارکردگی کو نیچا دکھانا لگتا ہے۔ اس سلسلے میں چونکا دینے والا امر یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کی تعلیمی کارکردگی کو بلوچستان اور فاٹاسے بھی کم تر دکھایا گیا ہے۔ 2014 کی قومی کانفرنس میںمذکورہ ادارے کی جانب سے ایک جامع رپورٹ جاری کی گئی تھی مگر اس مرتبہ بغیر کسی رپورٹ کے ہی کانفرنس کا انعقاد کیا جا چکا ہے ۔ غیر ملکی اداروں سے امداد نہ لینے اور مکمل طور پر سرکاری اخراجات سے اسسمنٹ مکمل کرانے کا حکومتی دعویٰ بھی محض نظر کا فریب ہے کیونکہ ڈیٹا انیلاسس جیسے اہم کام کے لیے ادارے میں اہلیت موجود نہیں اور یہ کام یونیسیف کے اخراجات سے کنسلٹنٹ کی زیر نگرانی کرایا گیا۔ذرائع کے مطابق اس تعلیمی جائزے کے لیے اکٹھا کیے جانے والے ڈیٹا پر بھی بہت سے سوالات موجود ہیں جن میں اہم ترین خیبر پختونخواہ کے بہت سے اسکولوں میں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے وہاں سائنس اور ریاضی جیسے اہم مضامین میں پرچے اردو زبان میں بھیجا جانا شامل ہے۔ مزید براں اسی صوبے میں ڈیٹا اکھٹا کرنے کے ذمہ داران کے انتخاب اور ان کی ٹریننگ میں کمی رہی جس کے باعث وہاں مشکلات درپیش آئیں۔ بجٹ کی تیاری میں کوتاہی کے باعث اب تک بڑی تعداد میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے صوبائی ذمہ داران کو ان کے بلوں کی ادائیگی تک نہیں ہو سکی۔ یہ وہ اسکول اساتذہ تھے جنھوں نے اپنے ذاتی خرچ سے سفر کیا اور مشکل حالات میں امتحانات کا انعقاد کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نتائج کے مطابق ریاضی کے مضمون میں خیبر پختونخواہ بلوچستان اور فاٹا کے بھی بعد یعنی چھٹے نمبر پر رہا۔بالکل ایسی ہی صورتحال جماعت ہشتم کے سائنس کے مضمون میں رہی جہاں خیبر پختونخواہ ایک بار پھر چھٹے نمبر پر دکھایا گیا۔ انگریزی کے مضمون میں صورتحال اس سے بھی بد تر ظاہر کی گئی ہے جہاں خیبر پختونخواہ کو آخری درجے پر دکھایا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسی ادارے کی گزشتہ رپورٹ میں کسی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا شائبہ تک نہ تھا اور نتائج پر کسی بھی حلقے کی جانب سے انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ نیشنل ایجوکیشن اسیسمنٹ سسٹم (NEAS) میں ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان ڈاکٹر کمال الدین حکومت بلوچستان میں کالجز برانچ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں جن کی ڈیپوٹیشن کی مدت مئی 2018میں ختم ہو رہی ہے جس میں اب چار ماہ سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور وہ اسی برس اگست کے مہینے میں ریٹائر بھی ہو رہے ہیں۔ فیڈرل سروسز ٹریبونل پہلے ہی ڈاکٹر کمال کو ان کے محکمے میں واپس بھیجنے کا حکم سنا چکا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان پہلی مرتبہ ایک بین الاقوامی اسسمنٹ ٹمزکا حصہ بننے جارہا ہے، ڈاکٹر کمال کو مسلسل غیر ملکی دوروں پر بھجوایا جا رہا ہے۔ اخراجات پر قابو پانے کے حکومتی دعووں کی نفی کرتے ہوئے گزشتہ 12 ماہ کے دوران ڈاکٹر کمال جرمنی، آسٹریلیا اور تھائی لینڈ کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔ اس اہم معاملے کی نگرانی کے لیے ضروری یہ ہے کہ نیشنل ایجوکیشن اسسمنٹ سسٹم میں کسی ایسے افسر کو تعینات کیا جائے جو نہ صرف اسیسمنٹ کے معاملات کو سمجھتا ہو بلکہ اس کی مدت ملازمت بھی باقی ہو تاکہ 2019 میں پاکستان بغیر کسی مسئلے کے ٹمزاسٹڈی میں شرکت کر سکے۔ پاکستان نے اس اسٹڈی میں شرکت کے لیے ایک بین الاقوامی تنظیم کو ڈھائی کروڑ روپے کی خطیر رقم بھی ادا کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر حکومتی حلقوں کی خوشنودی کے لیے ناقابل فہم نتائج کے اجرا کا مقصد بعد از ریٹائرمنٹ کنٹریکٹ بنیادوں پر عہدے پر براجمان رہنا دکھائی دیتا ہے مگر اس قسم کے عمل سے فیڈریشن کے مختلف حصوں کے درمیان غلظ فہمیاں بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کروڑوں روپے کے اخراجات سے ہونے والے اس جائزے کا مالی اور تکنیکی آڈٹ کرایا جائے تاکہ خدشات کا ازالہ ہو سکے۔ اس حوالے سے ’’نوائے وقت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے جوائنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر پروفیسر رفیق طاہر نے کہا کہ میں نے اس رپورٹ کو بدھ24جنوری کو جاری کیا جارہا ہے تاہم میں نے ابھی تک اس رپورٹ کو پڑھا نہیں ہے،میں اسلام آباد میں نہیں تھا میرے بعد یہ تیار ہوئی ہے اور پیر کو میرے پاس آئے گی اسے پڑھ کر ہی میں کوئی ردعمل دے پائوں گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری وزارت نے کچھ اعدادو شمار جمع کیے ہیں اس میں تو خیبر پختونخوا پنجاب سے بھی آگے ہے،تاہم میں رپورٹ پڑھ کر ہی کوئی ردعمل دوں گا۔