زینب کیس سستی شہرت کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے، قاتل 72 گھنٹے میں پکڑیں: چیف جسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی+ بی بی سی) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دے دی اور کہا کہ قصور میں پے در پے زیادتی کے واقعات ہوئے۔ اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی؟، پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے۔ اتوار کے روز بھی عدالت لگا کر تفتیشی پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں خصوصی بنچ نے قصور میں7 سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران متاثرہ بچوں اور بچیوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے استدعا کی کہ ہمین انصاف چاہیے۔ تحقیقاتی ٹیم نے فل بنچ کو آگاہ کیا کہ جون 2015 سے اب تک 8 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں پولیس سٹیشنز کی حدود میں ہوئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔ جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے، پولیس کیا کر رہی تھی؟ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔ سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ 800مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے، جس میں سے 8 ٹیسٹ میچ ہوئے۔ از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے افسوس کا اظہار کیا کہ معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے زینب کے لواحقین سے استفسار کیا کہ آپ کو اگر کسی قسم کی شکایات ہیں تو بتائیں؟ جس پر لواحقین نے عدالت میں بیان دیا کہ جے آئی ٹی تسلی بخش کام کررہی ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ دعا گو ہیں کہ یہ جلد کامیاب ہوجائیں، فل بنچ نے جے آئی ٹی کو تفتیش کے اندر ماہر نفسیات کو شامل کرنے کی ہدایت کی اور زیادتی کا نشانہ بننے والی زیر علاج بچی کائنات کی میڈیکل رپورٹ بھی طلب کر لی۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اس بچی کا ہرممکن علاج کروایا جائے اگر اس کیلئے بیرون ملک بھجوانے کی ضرورت ہے تو بھجوایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا جو پولیس کر رہی ہے، اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2تھانوں کی حدود میں مسلسل واقعات ہوئے۔ کسی نے انکوائری کیوں نہیں کی؟ اتنے واقعات پر پولیس کیا کر رہی تھی؟۔ جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔ پنجاب فرانزک کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر اشرف بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ اور بند کمرہ سماعت کے دوران ملٹی میڈیا پر بریفنگ دی۔ ڈاکٹر طاہر اشرف نے کہا کہ جو ویڈیو ہم نے دیکھی یقین نہیں کہ یہ اسی بچی کی ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے فل بینچ نے بند کمرے کی کارروائی کا تحریری حکم جاری کر دیا اور تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹے کی مہلت دے دی۔ واضح رہے کہ تفتیشی اداروں کی جانب سے تفتیش مکمل کرنے اور کسی منطقی نتیجے تک پہنچنے کے لیے مہلت مانگی گئی تھی۔ عدالت نے سپریم کورٹ نے سول سوسائٹی کے نمائندے کی فریق بننے کے لئے استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کو زینب قتل کیس میں کسی سول سوسائٹی کی معاونت کی ضرورت نہیں۔ اس کیس کو سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ ہمیں سول سوسائٹی سے زیادہ بہتر پتہ ہے کہ زینب قتل کیس کو کیسے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ جسٹس منظور ملک نے ریمارکس میں کہا کہ اگر 2015 میں ہی ادارے الرٹ ہوتے تو یہ نہ ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف ڈی این اے کے پیچھے نہ پڑیں، تفتیش کے اور بھی طریقے ہیں۔ جسٹس منظور ملک نے جے آئی ٹی کے سربراہ محمد ادریس سے کہا کہ تفتیش میں چھوٹی چیزوں پر بھی غور کریں، جیسے کہ تمام سارے پرانے کیسوں میں شام کا وقت ہے۔ اس پر جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ تمام تفصیلات دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ پرانے کیسوں کی قمری تاریخیں بھی زیر غور ہیں۔ جسٹس منظور ملک نے کہا کہ پولیس کی غفلت ہے لیکن پکڑنا بھی پولیس نے ہے۔ انہوں نے پاکستان بار کونسل کو پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایات دیں۔ ڈاکٹر اشرف طاہر کا مزید کہنا تھا کہ کچھ اہم باتیں ایسی ہیں جنہیں عدالت میں سب کے سامنے بیان نہیں کر سکتا۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، چیمبر میں سماعت کریں گے۔ چیمبر میں سماعت ختم ہونے کے بعد جاری کردہ عدالتی آرڈر کے مطابق ڈاکٹر اشرف طاہر نے عدالت سے درخواست کی کہ حتمی نتیجے میں پر پہنچنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے جس پر عدالت نے اپنے تحریری حکم میں لکھا کہ جو کرنا ہے 72 گھنٹوں میں کریں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے غیر معیاری لاء کالجز سے متعلق کمیشن کو 7ہفتوں میں اصلاحات کرکے حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ جبکہ ہسپتالوں میں سہولیات کی ناقص صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ایک مرتبہ تعلیمی اصلاحات کا قانون بن جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بنچ نے ہسپتالوں کی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی اور ہسپتالوں میں صفائی کے انتظامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لاہور کے ہسپتالوں سے 64 ٹن کچرا ملا جو تشویش ناک ہے چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کراچی میں اتنی گندگی پھیلی ہوئی تھی جس میں ایکشن لینے کے بعد بہتری آئی ہے۔ دوران سماعت ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان کاظمی نے نشاندہی کی کہ نوجوان ڈاکٹروں کی تنخواہ بہت کم ہے جس پر چیف جسٹس نے اسے افسوس ناک قرار دیا تاہم ریمارکس دیئے کہ 45 ہزار میں ایک ڈاکٹر معمول کی زندگی گزار سکتا ہے چیف جسٹس پاکستان نے زور دیا کہ ڈاکٹر کی حیثیت ماں جیسی ہے ان کی بہتری کے لئے تعلیمی اصلاحات لانی ہونگی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بزرگ پنشنر کے دو بچوں کو میڈیکل کالج میں داخلے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ دونوں بچوں کی میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے گی۔ عدالت نے بزرگ پنشنر ڈاکٹر عقیل احمد کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے اس کی پنشن جاری نہیں کی جسکی وجہ سے بیٹے اور بیٹی کی فیس نہیں دے سکا۔ اگر حکومت پنشن جاری کردیتی تو بچوں کو وقت پر داخلہ مل جانا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ دونوں بچوں کی میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے گی۔ عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ دونوں بچوں کا میرٹ دیکھیں۔ اگر بنتا ہے تو داخلہ دلوائیں۔
چیف جسٹس