لانگ مارچ لاہور سے روانہ ہوا‘ تعداد کیا تھی؟ ایک جم غفیر تھا۔ 23 دسمبر 2013ءکے مینار پاکستان کے وسیع و عریض گراﺅنڈ میں موجود حاضرین سے کچھ کم، زیادہ یا پھر اتنی ہی تعداد۔افراتفری میں ماں اپنے بچوں کو نہیں سنبھال پاتی‘ یہ تو بلاشبہ لاکھوں افراد تھے۔ ان میں عورتیں تھیں اور بچے بھی۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے بچے اور شیرخوار بچے۔ یہ جمہوریت کا اعجاز ہے کہ لاکھوں کے اجتماع میں کسی نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ پنجاب کے حکمران ڈاکٹر طاہرالقادری کے سخت مخالف‘ مرکز والوں پر شدید اور متواتر حملہ آور ہو کر ان کو بھی دشمن بنالیا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ لانگ مارچ جہاں رکا کہ وہاں رکا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کیلئے اتنے لوگ ہی دستیاب نہیں ہونگے کہ اسے لانگ مارچ کہا جا سکے۔ اگر لوگ گھروں سے نکل آئے تو پنجاب حکومت ان کو اسلام آباد پہنچنے نہیں دیگی۔ پنجاب حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جسے لانگ مارچ کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جائے۔ ماڈل ٹاﺅن لاہور سے مختصر قافلہ روانہ ہوا جو ہر گام بڑھتا گیا۔ اسلام آباد میں داخل ہوا تو بھی اس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وزیر داخلہ رحمان ملک” استقبال“ کی تیاری کرکے بیٹھے تھے۔ ہزاروں پولیس والے کیل کانٹے سے لیس‘ رحمٰن بادشاہ کے اشارے پر خون کی ندیاں بہانے پر کمربستہ تھے۔ خدا بھلا کرے صدر آصف علی زرداری کا انہوں نے پولیس کے بادشاہ کو خونریزی سے سختی کے ساتھ منع کر دیا۔ مرکز اور پنجاب کے حکمرانوں میں سوا اختلاف سہی‘ وہ ایک دوسرے کو اندر سے بھی ناپسند کرتے ہیں یا یہ ڈرامہ بازی ہے۔ یہ الگ ایشو ہے۔ دونوں میں جو قدر مشترک ہے‘ وہ ان حکومتوںکا سیاسی اور جمہوری ہونا ہے۔ مروجہ جمہوریت پر بات اور تنقید ہو سکتی ہے لیکن یہ وہی جمہوریت ہے جسے بہترین آمریت سے بھی بہتر قرار دیا جاسکتا ہے۔ رحمان ملک کا رویہ ہمیشہ جمہوریت کے حوالے سے سوالیہ نشان رہا ہے۔ انکی زبان انگارے برساتی اور شعلے اگلتی ہے۔ اسکی وجہ ان کا سیاست سے مبرا ماضی ہے۔ انہوں نے تو کبھی کونسلر کا الیکشن نہیں لڑا۔ پاکستان میں گو سینٹر بھی جمہوری عمل سے گزر کرہی منتخب ہوتے ہیں لیکن یہ عمل بھی بعض لوگوں کی سوچ کو جمہوری نہیں بنا سکتا اور پھر جس انداز میں سنٹری تقسیم اور فروخت ہوتی ہے‘ اس کے مظاہر بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ رحمان ملک اگر دھرنے پر شب خون مارنے کیلئے بے قرار تھے تو اسکے پیچھے انکی غیرجمہوری اور غیر سیاسی سوچ کارفرما تھی۔ زرداری صاحب نے اپنے وزیر داخلہ کا ہاتھ روکا‘ طاہر القادری کو اپنی آواز بلند کرنے کا پورا موقع دیا یہ صرف جمہوریت ہی کا کمال ہے۔
طاہرالقادری نے مذاکرات کیلئے ڈیڈ لائن دی‘ حکومت نے اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا‘ اتحادی مذاکرات کیلئے تیار ہوئے۔ خود چل کر اس شخص کے پاس پہنچے جو ان کو یزید تک کہہ رہا تھا۔ مذاکرات شروع ہوئے‘ طاہرالقادری نے بھی ہٹ دھرمی کے بجائے جمہوری انداز اپنایا۔ درمیانی راہ نکال کر چار روز سے شدید سردی اور بارش میں سیسہ پلائی دیوار بنے افراد کی گھروں کو باعزت واپسی ممکن بنائی۔ ایک طرف ڈی چوک میں دھرنے کے افراد جم کر بیٹھے تھے اور حکومت مذاکرات کی تیاری کر رہی تھی تو دوسری طرف لاہور میں نواز شریف کی دعوت پر ایک آدھ کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین جمہوری سسٹم کو ڈی ریل نہ ہونے دینے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔ لانگ مارچ کے شرکاءغیرمسلح‘ منظم اور پرامن تھے۔ ان پر کسی بھی لمحے جبر نہیں ہوا۔ طاقت کا استعمال نہیں ہوا۔ ایسا صرف جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے۔
طاہرالقادری کے ساتھ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو دھرنے کے شرکاءجس پرامن طریقے اور پرجوش انداز میں آئے تھے اسی طرح اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ دھرنے کے پرامن اختتام پر ردعمل‘ تبصرے اور تجزیے تو ہونا ہی تھے‘ سو وہ ہو رہے ہیں۔ کوئی حق میں بول رہا ہے‘ کوئی مخالفت میں۔ کسی کو اس کا بھی صدمہ ہے کہ طاہر القادری کی ایک بڑی سیاسی شخصیت کی حیثیت بن گئی۔ کچھ لوگ طعنے دے رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں انہوں نے جوکچھ کیا وہ حالات کے مطابق بالکل درست تھا۔ ایک بڑا حلقہ طاہر القادری کو بار بار کہہ رہا تھا کہ وہ اپنا ایجنڈہ انتخابات کے ذریعے بروئے کار لائیں‘ ان کے ترجمان کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اگر منہاجی اسی پلیٹ فارم سے یا عوامی تحریک کو بحال کرکے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو ان کا یہ عمل جمہوریت کی تقویت کا باعث بنے گا جس سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
کسی بھی معاملے میں ہار اور جیت کا پہلو تلاش کرنا ہمارے کلچر کا جزو بن چکا ہے۔ طاہر القادری کا دھرنا کامیاب مذاکرات کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ فریقین نے اسے اپنی اور دوسرے فریق کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے مبارکبادیں شیئر کیں۔ حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کی قیادت چودھری شجاعت حسین نے کی ،قبل ازیں وہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دوران بلوچستان مسئلہ کے حل کے لئے تشکیل دی گئی کمیٹی کے سربراہ تھے ،ان کی سفارشات پر عمل کرنے کے بجائے پرویز مشرف نے اکبر بگٹی کو قتل کرادیا۔ لال مسجد کے حوالے سے بھی چودھری شجاعت مذاکرات کرتے رہے جہاں بھی آمریت آڑھے آئی اور مشرف نے چودھری شجاعت کی بات ماننے کے بجائے اپریشن سائلنس کا حکم دے کر فوج کے ہاتھوں معصوم بچیوں کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ اب وہی چودھری شجاعت ہیں جن کی سربراہی میں مذاکرات کے نتیجے میں دھرنے کا خوشگوار انجام ہوا۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں جمہوریت کا کار فررما ہونا ہے ۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے اس اچھے انجام سے ،پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی جیت ہوئی ،ڈاکٹر طاہرالقادری کی جیت ہوئی،نواز شریف اور ہر اپوزیشن جماعت کی جیت ہے ،یہ ہر پاکستانی کی جیت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ جمہوریت کی جیت ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38