پیر آف پگاڑا صبغت اللہ راشدی ان دنوں پنجاب کے دورے پر ہیں اور انہوں نے جاتی عمرہ رائے ونڈ میں مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف اور نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف جناب مجید نظامی سے اپنی ملاقاتوں کے دوران آئندہ انتخابات میں موجودہ حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کاراستہ روکنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس بنانے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کے حوالے سے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ پیر آف پگاڑا نے جناب مجید نظامی سے کہا ہے کہ وہ مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کے لئے اپنا اثرورسوخ اور اپنا خصوصی کردار ادا کریں۔ اس وقت مسلم لیگ کا سب سے بڑا دھڑا مسلم لیگ(ن) ہے اور یہی وہ مسلم لیگ ہے جو موجودہ حکمران اتحادکا راستہ روکنے کے لئے سب سے زیادہ موزوں سیاسی قوت ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل سندھ اور سرائیکی بیلٹ تک اثرورسوخ رکھنے والی جماعت ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ فنکشنل میں انتخابی الائنس ہوا تو یہ ایک فطری الائنس ہو گا۔ پیر آف پگاڑا سندھ کی قوم پرست سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر پہلے ہی سندھ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ دونوں کو چیلنج کر چکے ہیں کہ حکمران اتحاد کی ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا جو ڈھانچہ متعارف کرایا ہے اس میں متحدہ کی خواہش پر شہری علاقوں میں ناظم اعلیٰ کے ذریعے مقامی حکومتوں کا جنرل مشرف کا نظام قائم رکھنے اور دیہی علاقوں میں مقامی حکومتوں کا کمشنری نظام رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل اور قوم پرست سندھی سیاست دان پورے صوبے میں مقامی حکومتوں کے ایک ہی نظام کے حق میں ہیں اور وہ بھی کمشنری نظام کے حق میں ہیں۔ میاں محمد نوازشریف بھی سندھ میں دوہرے بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لئے مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ فنکشنل میں ادغام یا سیاسی اتحاد میں کوئی نظریاتی رکاوٹ نہیں ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ(ق) کی باقیات میں ڈاکٹر ارباب رحیم اور سابق وزیر مہر غوث بخش نمایاں شخصیات ہیں۔ ڈاکٹر ارباب رحیم نے خود کو مسلم لیگ ہم خیال سے منسلک کر رکھا ہے جبکہ مہرغوث بخش مسلم لیگ(ق) کو چھوڑ چکے ہیں اور اب مسلم لیگ(ن) یا مسلم لیگ فنکشنل میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کے متعلق سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگی دھڑے متحد ہو جائیں تو ان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ارباب رحیم کے لئے متحدہ مسلم لیگ سے الگ رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مسلم لیگ ہم خیال بھی مسلم لیگ(ق) کا ہی ایک دھڑا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ کا یہ دھڑا مسلم لیگ(ق) کے مقابلے میں بہتر انتخابی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس دھڑے میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے امیدوار موجود ہیں اور اس دھڑے نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد کے ساتھ آئندہ الیکشن میں جانے کا پہلے ہی فیصلہ کر رکھا ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر ارباب رحیم چونکہ اس دھڑے کے چیئرمین ہیں اور وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی کامیابیوں کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک شاندار پیش رفت ہو گی اور ایسا کرنے سے سندھ میں مسلم لیگ پیپلزپارٹی کو شکست دینے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔اس دھڑے کے صدر قومی اسمبلی کے سابق سپیکر حامد ناصر چٹھہ اور جنرل سیکرٹری سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان ہیں۔ صوبہ خیبر پی کے سے سلیم سیف اللہ گروپ بھی ہم خیال دھڑے کا حصہ ہے اور ان تینوں کو پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ میں شامل کر لینا مناسب ہو گا۔ صوبہ خیبر پی کے میں مسلم لیگ(ق) کے سابق صوبائی صدر امیرمقام کے علاوہ گوہرایوب خان اور ان کے بیٹے عمرایوب خان مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ ہم خیال سے ناطہ توڑ کر پہلے ہی مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ ہم خیال کے لئے مناسب ہو گا کہ وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ انتخابی اتحاد کی بجائے اس میں ادغام کی راہ اختیار کر لیں تاکہ انہیں ”شیر“ کے انتخابی نشان پر حکمران پیپلزپارٹی یا اے این پی کے امیدواروں کے بالمقابل الیکشن لڑنے اور جیتنے میں آسانی رہے۔ مسلم لیگ ضیاءگروپ انتخابی اتحاد کی بجائے مسلم لیگ(ن) میں ادغام کو ترجیح دے گا۔ اس کے لئے اعجازالحق کو مرکزی مجلس عاملہ میں شامل کر لینا ہی کافی ہو گا۔ میاں محمد نوازشریف کوشش کریں تو اس قیمت پر شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ بھی مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو سکتی ہے۔ شیخ رشید احمد کو پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی اتحاد کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے پانچ سات حلقوں میں ٹکٹ جاری کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے لیکن شیخ رشید احمد کو امر کا یقینا ادراک ہو گا کہ انہیں قومی اسمبلی میںپہنچنے کے لئے ”شیر“ کے انتخابی نشان کی اشد ضرورت ہے۔ پیر آف پگاڑا نے جناب مجید نظامی کے ساتھ اپنی ملاقات میںکہا ہے کہ لیگی دھڑوں کا اتحاد ان کے والد کی خواہش تھی اور اگر لیگی دھڑے متحد ہو جائیں تو ان کا بوجھ بہت حد تک کم ہو سکتا ہے۔ جناب مجید نظامی نے صبغت اللہ راشدی پیر آف پگاڑا کو یاد دلایا کہ پیرپگاڑا مرحوم نے ایوان کارکنان پاکستان میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگی دھڑوں کے غیرمشروط اتحاد کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں جنرل کونسل میں نمائندگی سمیت کسی عہدے کی ضرورت نہیں۔ پیر صبغت اللہ راشدی چونکہ مسلم لیگی دھڑوں کے ادغام یا اتحادکے زبردست داعی ہیں لہٰذا وہ مسلم لیگ(ن) کی صدارت کا عہدہ میاں محمد نوازشریف کے پاس ہونے کی صورت میں دونوں لیگی دھڑوں کے ادغام کو خلوص دل سے قبول کر لیں گے۔ مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد یا ادغام میں اصل رکاوٹ مسلم لیگ(ق) کی قیادت ہے۔ چوہدری برادران نے جاتی عمرہ سے ظہورالٰہی پیلس کا فاصلہ بہت زیادہ بڑھا لیا ہے۔
چوہدری برادران ان دنوں حکمران اتحادکا حصہ ہیں اور پیپلزپارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے ساتھ اپنے پارٹی کے نشان سائیکل پرمسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر وہ پیپلزپارٹی کے انتخابی نشان پر الیکشن میں جاتے ہیں تو مسلم لیگ(ق) خودبخود پیپلزپارٹی میںضم ہو جائے گی۔ ایسا ہوا تو یہ ایک المیہ ہو گا۔ پاکستان کے مسلم لیگی رائے دہندگان تو کسی مسلم لیگی دھڑے کا پیپلزپاری سے انتخابی اتحاد بھی اس دھڑے کی نظریاتی موت قرار دیتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ(ق) تیر کے انتخابی نشان پر انتخابی معرکے میں اترنا قبول کر لے گی تو اس سے چوہدری ظہورالٰہی شہید کی روح تڑپ تڑپ اٹھے گی۔ چوہدری برادران کو اپنے اصل کی طرف لوٹ آنا چاہیے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ میاں محمد نوازشریف بھی ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر انہیں گلے لگانے کو تیار ہو جائیں۔جاتی عمرہ میں چوہدری برادران کی ایک دعوت طعام کو معرض التوا میں پڑے ہوئے لگ بھگ پانچ سال ہونے کو ہیں۔ میاں محمد نوازشریف کو چاہیے کہ وہ پیر صبغت اللہ راشدی، حامد ناصر چٹھہ، ہمایوں اختر، سلیم سیف اللہ، اعجاز الحق اور شیخ رشید احمد سمیت چوہدری برادران اور ان کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو جاتی عمرہ میں کھانے پر بلا لیں۔ چوہدری پرویزالٰہی کی عمرہ سے واپسی کے موقع پر یہ بہترین موقع ہو گا۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس دعوت میں جناب مجید نظامی بھی موجود ہوئے تو چوہدری ظہورالٰہی کے بیٹے اور بھتیجے اب مزید زرداری سیاست کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ اس صورتحال میںکچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہے لیکن یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ چوہدری برادران میاں محمد نوازشریف کے دیرینہ ساتھی ہیں۔ وہ صبح کے بھولے ہیں انہیں شام کے وقت گھر واپسی پر گلے لگانا ہی بڑا پن ہے۔ اس وقت سینٹ میں بھی مسلم لیگ(ق) کو نمائندگی حاصل ہے جو الیکشن 2013ءمیں مسلم لیگی دھڑوں کی کامیابی کے بعد بھی متحدہ مسلم لیگ کے لئے ضروری ہے۔ اگر مسلم لیگ متحد ہو جائے تو وہ چاروں صوبوں میں 30فیصد نشستوں پر سابقہ متحدہ مجلس عمل اور سندھ و بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو انتخابی ”ایڈجسٹ منٹ“ دے کر الیکشن 2013ءکا انتخابی میلہ نہایت فیصلہ کن انداز میں جیت سکتی ہے۔ کیا ایسا ہو سکے گا؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38