بھارت میں دہشت گردی کے پس پردہ حقائق‘ بھارتی وزیر داخلہ کے چشم کشا انکشافات.... کیا اب ڈرون حملوں کا رخ بھارت کی جانب نہیں ہونا چاہیے؟
بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بھارتی جماعتوں بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے انتہاءپسند ہندوﺅں کو عسکری تربیت دینے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس‘ مکہ مسجد بم دھماکہ اور مالی گاﺅں میں دھماکہ شیوسینا اور بی جے پی کا کارنامہ ہے جبکہ دہشت گردی کی ایسی کارروائیوں کا الزام بعد میں پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز حکمران کانگریس کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس انتہاءپسند عناصر کی ٹریننگ کر رہی ہیں اور ملک میں ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی بڑھانے کے کیمپس موجود ہیں۔ انکے بقول بھارتی اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ سلوک اور دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس قوم پرستی کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کر رہی ہیں اور ان جماعتوں کے ٹریننگ کیمپ ہندو ٹیررازم بڑھانے کا کام کر رہے ہیں جس پر ہماری کڑی نظر ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے حکمران کانگریس کی جس میٹنگ میں ہندو انتہاءپسندی پھیلانے سے متعلق انکشافات کئے‘ اس میں وزیراعظم منموہن سنگھ اور راہول گاندھی بھی موجود تھے۔ انکے اس بیان پر بھارتی اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انکے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ حکمران کانگریس کے سینئر لیڈر مانی شنکرآئر نے اس جرا¿ت مندانہ بیان پر وزیر داخلہ شندے کو مبارکباد دی ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ”آہنسا“ کے پرچارک بھارت میں غیرہندو اقلیتوں بشمول مسلمانوں کے ساتھ صرف امتیازی سلوک ہی نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں شودر کا درجہ دیکر ان کا عرصہ¿ حیات بھی تنگ رکھا جاتا ہے۔ غیرمنقسم ہندوستان میں ہندو کی برتری کی اسی سوچ نے مسلمان اقلیتوں کو اپنی مذہبی اور اقتصادی آزادی و تحفظ کیلئے الگ خطہ ارضی کی جدوجہد پر مجبور کیا جبکہ ہندو کے اس سفاکانہ طرز عمل اور برتری کے زعم نے ہی دو قومی نظریے کو اجاگر کیا جس کی بنیاد پر قائداعظم کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمان بالآخر اپنی الگ آزاد مملکت پاکستان کے حصول میں کامیاب ہوئے جبکہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی ہندو لیڈر شپ نے اکھنڈ بھارت کا منصوبہ ترک نہیں کیا جس کی بنیاد پر ہی بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت کمزور بنانے کی سازشوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ مسلم کش فسادات کی صورت میں مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ غیرمنقسم ہندوستان میں توڑے جاتے تھے‘ وہ تقسیم ہند کے بعد بھی مسلمان اقلیتوں پر جاری رہے اور ہندو انتہاءپسندی آج بھی بھارتی اقلیتوں کیلئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ اب توپوری دنیا پر یہ حقیقت افشاءہو چکی ہے کہ بھارت کے نام نہاد سیکولر معاشرے میں ہندو کی مذہبی جنونیت ہی علاقائی امن و سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا اعتراف آج بھارتی وزیر داخلہ خود اپنی پارٹی کے اہم اجلاس میں کر رہے ہیں۔ اس سے قبل مالی گاﺅں بلاسٹ کی تحقیقات کے دوران تفتیشی افسر ہیمنت کرکرے نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی انکشاف کیا تھا کہ اس واقعہ میں بھارتی فوج کے سرونگ کرنل پروہت ملوث ہیں۔ یہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے کچھ ہی دنوں بعد تفتیشی افسر کرکرےنومبر 2008ءکو ممبئی دھماکوں کے دوران فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اب بھارتی وزیرداخلہ نے صرف سمجھوتہ ایکسپریس ہی نہیں‘ مسلمانوں کیخلاف ہونیوالے دہشت گردی کے دوسرے واقعات میں بھی انتہاءپسند ہندو تنظیموں کے ملوث ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کر دیا ہے کہ متذکرہ ہندو تنظیمیں دہشت گردی کے فروغ کیلئے باقاعدہ تربیتی کیمپ چلا رہی ہیں جبکہ دہشت گردی کی وارداتوں کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ کیا اس بیان کے بعد ممبئی حملوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی سازش بھی بے نقاب نہیں ہونی چاہیے؟ جبکہ کارگل میں افواج پاکستان پر ہندو فوجیوں کی سرکٹی نعشیں بھجوانے کے الزام کا گزشتہ روز سابق صدر جنرل مشرف ایک بھارتی ٹی وی ٹاک شو کے اینکر پرسن کو دوٹوک جواب دے چکے ہیں جن کے بقول یہ واردات بھی خود ہندو فوجیوں نے افواج پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے ڈالی تھی۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو دبانے اور سبوتاژ کرنے کیلئے وہاں قابض بھارتی افواج ان پر مظالم کا ہر ہتھکنڈہ آزما چکی ہے جس کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے ہیں مگر بھارتی لیڈران ہمیشہ پاکستان پر دراندازی کا الزام عائد کرکے پاکستان بھارت مذاکرات کی میز الٹا دیتے ہیں تاکہ کشمیر ایشو پر کوئی بات نہ ہو سکے۔ اس الزام کے تحت بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اپنا طے شدہ دورہ¿ پاکستان بھی رعونت کے ساتھ منسوخ کر چکے ہیں اور آج وہ ہمیں یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ پاکستان نے کنٹرول لائن پر غیرانسانی کام کیا ہے جس سے باہمی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
درحقیقت گزشتہ ہفتے کنٹرول لائن پر خود بھارتی افواج کی جانب سے مسلسل چار بار جارحیت کا ارتکاب کیا گیا اور دراندازی کے ان واقعات میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے پاکستان کے دو جوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے مگر الزام الٹا پاکستان پر تھونپ دیا گیا اور پھر بھارتی وزیر خارجہ اور آرمی چیف سمیت بھارتی حکام نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا طولانی سلسلہ شروع کردیا جبکہ اب بھارتی وزیراعظم بھی کنٹرول لائن کے واقعات پر پاکستان ہی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اس تناظر میں بادی النظر میں یہی عندیہ مل رہا ہے کہ بھارت ہماری اندرونی کمزوریوں اور سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان پر دوبارہ جارحیت مسلط کرنے کی حکمت عملی طے کر چکا ہے جس کے تحت بھارتی افواج کو ہر قسم کے جدید اسلحہ سے لیس کیا جا رہا ہے۔ جو انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہمارے کرکٹروں اور ہاکی کے کھلاڑیوں کا بھی بھارت میں کھیلنا برداشت نہیں کرتیں اور پاکستانی ویمن کرکٹ ٹیم کا بھی بھارتی شہروں میں کھیلنا ناممکن بنا دیا جاتا ہے جن کے میچ ممبئی سے کٹک منتقل ہونے کے بعد بھی بھارتی انتہا پسند طلبہ کی جانب سے پچ اکھاڑنے اور خواتین کرکٹروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو ان سے پاکستان کیلئے خیرسگالی کے کسی جذبے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یہی ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت پاکستان بھارت کشیدگی اور علاقائی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات کا باعث بن رہی ہے جس کا مقصد اکھنڈ بھارت کا خواب ہر صورت پورا کرانا ہے چاہے اس کیلئے علاقائی اور عالمی امن ہی کیوں نہ داﺅ پر لگ جائے۔ اب جبکہ خود بھارتی وزیر داخلہ بھارت میں انتہا پسند ہندوﺅں کے دہشت گردی کے کیمپس موجود ہونے کا انکشاف کر رہے ہیں تو دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان میں ڈرون حملوں کا تسلسل برقرار رکھنے اور اس سلسلہ میں امریکی سی آئی اے کو کھلی چھوٹ دینے کی حکمت عملی طے کرنے والی واشنگٹن انتظامیہ کو کیا ڈرون حملوں کا رخ بھارت کی جانب نہیں کرنا چاہیے؟ اگر دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ڈرون حملوں کا ہدف بنایا جا رہا ہے تو علاقائی امن و سلامتی سے متعلق امریکی پالیسیوں میں اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو سکتا ہے؟
اس تناظر میں حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے ان قائدین کی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ”امن کی آشا“ کے نعرے لگاتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے معاملات میں حدود سے بھی تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کے ثبوت تو اب خود اسکی صفوں میں سے برآمد ہو رہے ہیں اس لئے ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو بھارتی جارحانہ عزائم کو بھانپ کر ملکی سالمیت کے تحفظ و دفاع کی دوٹوک اور جامع پالیسی طے کرنی چاہیے۔ چہ جائیکہ ہم اسکے تجارت کے فریب میں آکر اسکے ہاتھوں اپنی سالمیت بھی گنوا بیٹھیں۔ جو مکار بھی ہو اور منافق بھی‘ اسکی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف ہے۔