صدر کی بلوچستان میں قیام امن کی خواہش
صدر زرداری صاحب نے گورنر بلوچستان کو فون کرکے کہا ہے کہ وہ جلد بلوچستان کا دورہ کریں گے اور وہاں قیام امن کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائیگی۔ عرصہ دراز سے بلوچستان میں ترقی اور امن و امان کے قیام کے بلند و بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں اور ہر حکومت اربوں روپے ترقیاتی کاموں کے نام پر خرچ کررہی ہے۔ موجودہ حکومت نے ”آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکیج“ کے نام سے بھی کروڑوں کے منصوبے شروع کئے مگر اسکے باوجود صوبہ بدترین دہشت گردی، بدامنی اور انتہائی کرپشن کی لپیٹ سے نہیں نکل سکا۔ گورنر ذوالفقار مگسی سے ٹیلیفونک گفتگو میں صدر نے کہا ہے کہ ہم بلوچستان کے مسائل سے آگاہ ہیں اور انکو حل کرینگے۔ یہ دعویٰ تو ہر حکومت کرتی رہی ہے مگر اس پر عمل کسی نے بھی نہیں کیا۔ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں پر کام صرف کاغذوں میں نظر آتا ہے، حقیقت میں ان منصوبوں پر چیونٹی کی رفتار سے کام ہوتا ہے، باقی سب رقم سرکاری اور حکومتی کارندوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ جب حکومتی بااثر شخصیات جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرینگی تو جرائم میں کمی نہیں ہوگی بلکہ اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ چوریاں، ڈاکے، قتل، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، یہ سب کام کرنیوالے بااثر سیاسی شخصیات کے دامن میں چھپ جاتے ہیں اور قانون دیکھتا رہ جاتا ہے۔ غریب عوام تک ترقیاتی کاموں کے ثمرات پہنچ نہیں رہے۔ ساری رقم راستے ہی میں ہڑپ ہوجاتی ہے۔ پورا صوبہ پسماندگی اور افلاس کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے اور اسکے نتیجے میں انتہاپسندی اور باغیانہ خیالات تو خود بخود جنم لیتے ہیں۔ اگر ایسے برے حالات پر قابو پانا ہے تو پھر سختی سے قانون اور انصاف کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینا ہوگی۔ عوام کو خالی خولی نعروں سے زیادہ دیر بہلایا نہیں جاسکتا۔ ویسے بھی حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے۔ گورنر راج کے بعد جن 16 وزراءکیخلاف کرپشن کے الزامات میں تحقیقات ہورہی ہیں اگر وہ ایمانداری سے مکمل ہوئیں تو لگتا ہے کئی مگرمچھ قانون کے شکنجے میں پھنس جائینگے۔ نیب اگر ان سے قوم کے لوٹے ہوئے اربوں روپے وصول کر لے تو یہ اسکا بہت بڑا کام ہوگا۔لیکن بہتر یہی ہے کہ بلوچستان ہی باقی پاکستان کی طرح مروجہ جمہوریت بحال کردی جائے۔