ہم نے 23دسمبر 2012ءکے جلسے میں منہاج القرآن کی دعوت کے باوجود شرکت نہیں کی تھی۔ دوسری مرتبہ منہاج القرآن کے دفتر سے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ساتھ ملاقات کیلئے فون آیا تھا تو میں نے پھر بھی معذرت کی اور کہا کہ میں آپکے دفتر میں خواہ مخواہ فوٹو سیشن نہیں کرناچاہتا کیونکہ 23دسمبر کے جلسے کیلئے مجھے دعوت دی گئی تھی تو مجھے کہا گیا تھا کہ آپکو 23 دسمبر کے جلسے میں اسٹیج پر بٹھائیں گے اور آپ سے تقریربھی کروائیں گے ۔ مجھے ماضی میں بھی منہاج القرآن کے ایک پروگرام میں شرکت کا تجربہ تھا اور میں نے انکو اس کا حوالہ دیا کہ آپ جن کیخلاف بڑے زور وشور سے بولتے ہیں ان کو اپنے پروگراموں میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ اس لئے میں آپکے جلسہ میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی ملنے آﺅں گا۔
تحریک استقلال کے قائدایئرمارشل اصغر خان صاحب کا آپ کیساتھ اتحاد بھی ہوا تھا اور اس میں‘ میں نے بطور سیاسی ورکرجوکچھ دیکھا اس وجہ سے بھی میں آپ کیساتھ لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت نہیں کروں گا۔ آپکے مطالبات درست ہیں مگر ان کے منوانے کا طریقہ درست نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے انکے لانگ مارچ اور دھرنے کی حمایت کی یا اسکی منصوبہ بندی میں شامل تھے‘ انہوں نے بھی جب دیکھا کہ فوج بالکل کسی طرح بھی مداخلت کے موڈ میں نہیں ہے تو بالآخر انہوں نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا اور اس ٹوپی ڈرامے کو منزل مقصود تک پہنچایا۔ انکی حمایت کرنیوالوں کو پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ 65 سال میں پنجاب کی سرزمین پر پیدا ہونیوالے کسی جرنیل نے بھی مارشل لاءنہیں لگایا۔ پاکستان میں جتنے بھی مارشل لاءلگے ہیں ان جرنیلوں کا تعلق سندھ اور خیبر پختونخواہ سے تھا۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاءالحق K.P.K. اور جنرل پرویز مشرف سندھ سے تھے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 3جرنیل بڑی آسانی سے مارشل لاءلگاسکتے تھے مگر انہوں نے مارشل لاءنہیں لگایا۔ جنرل ٹکا خان کے وقت ملک دولخت ہوا تھا وہ بھی سیاستدانوں پر الزام لگاکر مارشل لاءلگاسکتے تھے مگر اس نے نہیں لگایا۔ جنرل جہانگیر کرامت بھی مارشل لاءلگاسکتا تھا مگر اس نے بھی ایسا نہیں کیا۔ آج جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی مارشل لاءلگاسکتا ہے مگر کسی بھی صورت جنرل کیانی مارشل لاءنہیں لگائے گا اور لانگ مارچ اور دھرنے کی ناکامی بھی یہی ہے کہ فوج نے اس میں مداخلت نہیں کی۔
منہاج القرآن والوں نے اپنی سیکورٹی کیلئے فوج کو خط لکھا تھا جوکہ غیر قانونی تھا اور I.S.P.R. کی طرف سے انکے خط کے بارے میں اخباروں میں شائع ہوچکا تھاجس میں I.S.P.R. نے جواب دیا کہ آپ متعلقہ وزارت کو اپنی سیکورٹی کے متعلق لکھیں۔ منہاج القرآن والوں نے فوج کو ملوث کرنے کی کوشش کی تھی مگر فوج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس لانگ مارچ اور دھرنے پر کوئی توجہ نہ دی اور طاہر القادری صاحب کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ اگر فوج کی طرف سے کوئی اشارہ ہوتا تو عمران خان جو انتظار کر رہا تھا‘وہ لانگ مارچ میں ضرور شرکت کرتا۔ اسی طرح M.Q.M. نے لانگ مارچ کی حمایت بھی کی تھی اور بعد میں اس میں شرکت سے انکار کردیا تھا اور حمایت جاری رکھی۔ ان کو بھی پورا پورا یقین ہوگیا تھا کہ فوج کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ ق لیگ کا سارا مقصد یہ تھا کہ اگر طاہر القادری صاحب اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب بھی انکا سیاسی فائدہ یہ ہوگا کہ نوازشریف کا راستہ کئی سالوں تک رک جائیگا اور اگر طاہر القادری صاحب کو ناکامی ہوگی تو کم از کم طاہرالقادری صاحب کے پنجاب کے ہرضلع میں دس ہزار کے قریب جو ووٹ ہیں‘ وہ انتخابات میں ق لیگ کو مل سکتے ہیں۔ اب طاہر القادری صاحب کی لانگ مارچ اور دھرنے میں ناکامی کے بعد یہ ووٹ ق لیگ کو ملنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے میں اس بات کا بھی امکان تھا کہ جنرل مشرف بھی آرہا ہے مگر عمران خان‘ جنر ل مشرف اور وہ جماعتیںجو اس لانگ مارچ اور دھرنے کو کامیاب کرنے کی باتیں کر رہے تھے انکی امیدوں پر پانی اس وقت پھر گیا جب فوج کی طرف سے حمایت یا مداخلت کا کوئی امکان نظر نہیں آیااور پھر فوراً مذاکرات کا راستہ نکالا گیا۔ 20 دسمبر کے بعد مسلسل مضامین ‘ اخباری بیانات اور T.V. پروگراموں میں کہتا رہا ہوں کہ طاہر القادری کے کچھ مطالبات بالکل درست ہیں مگر طریقہ کار درست نہیں ہے۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے میں ایک بات ثابت ہوئی کہ اپوزیشن جماعتوں نے بروقت میاں نوازشریف کی قیادت میں رائے ونڈمیں مثبت فیصلے کئے اور اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ بیان نے لانگ مارچ اور دھرنے کی حیثیت کو ختم کردیا تھا اور تمام اہم اداروں کو بہت ہی اچھا پیغام پہنچا۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بروقت فیصلے نے دھرنے کو ناکام بنادیا۔
حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر اتفاق رائے پیدا کریں کہ ملک کو اس بدتر حالات سے نکالنے کیلئے کچھ باتوں پر اتفاق کرنا اور اس کو آئین کا حصہ بنانا ضروری ہے جب سیاسی جماعتیں خود اقتدار میں نہیں ہوتیں تو ان کو بجلی‘ گیس‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت اور لاقانونیت یادآتی ہے اور اپنے جلسوں‘ سیاسی بیانات میں اسکا رونا روتی ہیں مگر جب اقتدار میں آجاتی ہیں تو خود اس پر عمل نہیں کرتیں۔ آج کے سیاستدان آزاد میڈیا کی وجہ سے اس ملک میں کوئی غیر جمہوری عمل نہیں کرسکتے‘ ایوب خان سے لیکر یحیٰی خان‘ ضیاءالحق اور مشرف تک آمروں نے یہ باتیں کھل کر کی تھیں مگر ایوب خان نے صرف عوام کے مفاد کے کام کئے تھے۔ انہوں نے کچھ آبی ذخائر تربیلا ا ور منگلا ڈیم بنائے جسکی وجہ سے آج کچھ نہ کچھ بجلی اور پانی مل ہا ہے۔ مشرف نے بھی اچھی حکمرانی کی تھی۔ اختیارات کو حقیقی طور پر نچلی سطح پر منتقل کیا تھا‘ یاگر ان نتائج کوتسلیم کرلیا جاتا اور اقتدار حقیقی جیتنے والی پارٹی کو منتقل کردیا جاتا تو پاکستان کبھی بھی نہ ٹوٹتا۔ یحییٰ خان نے صدر بننے کی خاطر شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار نہیں سونپا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے افغان جنگ جو امریکہ کے مفاد کی جنگ تھی‘ اس کو اپنی جنگ قرار دینے کی بڑی غلطی کی ہے جس کے باعث ملک معاشی طور پر ڈوب چکا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے نظام کو یقینی طور پر بدلنے کی ضرورت ہے مگرتبدیلی کا عمل یقینی طور پر آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کرنا چاہئے۔ لشکرکشی اور جذباتی تقریروں سے جن میں سیاستدانوں کو مجرم ٹھہرانا بھی مناسب نہیں تھا۔ جمہوری عمل واحد ذریعہ ہے۔اگر جمہوریت کو بار بار ختم کرکے آمریت کو مسلط کرتے رہے تو ہمارا ماضی گواہ ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ جمہوری نظام کو چلنے کا موقع ہر حالت میں ملنا چاہئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024