ڈونلڈ ٹرمپ، جو امریکہ کے 45ویں صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، اپنی متنازعہ پالیسیوں اور غیر روایتی طرزِ سیاست کے باعث دنیا بھر میں توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ان کی پالیسیاں خاص طور پر جنوبی ایشیا، بالخصوص پاکستان کے لیے کئی پہلوؤں سے اہمیت رکھتی ہیں۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے یا ان کی خارجہ پالیسیوں کے تسلسل کے حوالے سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا ان کے اقدامات پاکستان کے لیے سودمند ثابت ہوں گے یا نقصان دہ۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، اور ٹرمپ کے دورِ صدارت میں بھی یہی صورت حال برقرار رہی۔ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آغاز میں پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنایا اور 2018 میں پاکستان کی سیکیورٹی امداد معطل کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہے۔ تاہم، بعد میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں انہوں نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور تعلقات میں بہتری آئی۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ آخر اب وہ پاکستان کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھتے ہیں۔آیا وہ پاکستان کے ساتھ سخت رویہ اپناتے ہیں یا مفاہمت کی پالیسی اپناتے ہیں۔
ٹرمپ کی افغانستان پالیسی براہ راست پاکستان کو متاثر کرتی رہی ہے۔ 2020 میں ان کی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا، جس میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں، تو وہ افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کے کردار کو مزید تقویت دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ البتہ، اگر وہ سخت گیر موقف اپناتے ہیں اور پاکستان پر مزید دباؤ ڈالتے ہیں تو اس کے اثرات پاکستان کی سفارتی حیثیت اور معیشت پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کیا، جو پاکستان کے لیے تشویشناک تھا۔ 2019 میں انہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ "ہاؤڈی مودی" ایونٹ میں شرکت کی اور بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید فروغ دیا۔ اس بات کا بھی شبہ ہے کہ ٹرمپ کی جانب سیبھارت کو مزید سفارتی اور دفاعی مدد ملنے کا امکان ہے، جو خطے میں پاکستان کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ تاہم، ٹرمپ کا چین مخالف رویہ پاکستان کے لیے ایک موقع بھی بن سکتا ہے کیونکہ چین اور پاکستان قریبی اتحادی ہیں۔
ٹرمپ کی "امریکہ فرسٹ" پالیسی کا اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑا۔ ان کے دور میں پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی بڑے اقتصادی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے اور امریکی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک بہتر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔حالیہ دنوں میں مختلف ممالک کے ساتھ انویسٹمینٹ کے معاھدے یقیناً موجودہ حکومت کی بہترین حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔امریکہ کے ساتھ بھی معاہدوں کی نوعیت پہلے سے کافی مختلف نظر آ رھی ہے
ٹرمپ انتظامیہ چین کے خلاف سخت موقف رکھتی ہے اس لییچین کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کا اثر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) پر بھی پڑ سکتا ہے، کیونکہ امریکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا مخالف ہے۔ پاکستان کو ایسی صورتِ حال میں محتاط سفارت کاری اپنانا ہوگی تاکہ وہ امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھ سکے۔
ٹرمپ نے اپنے دور میں پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ایک اندازہ ہے کہ پاکستان کو مزید امریکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں سیکیورٹی امداد کی معطلی یا سفارتی سطح پر مشکلات شامل ہوسکتی ہیں۔ البتہ اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف مزید سخت اقدامات کرتا ہے تو وہ اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں سخت امیگریشن پالیسیز نافذ کیں، جن میں مسلم ممالک پر ویزا پابندیاں بھی شامل تھیں۔اب کی بار پاکستانی طلبہ اور کاروباری افراد کے لیے امریکہ کا ویزا حاصل کرنا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے بھی نئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔
ٹرمپ کی ممکنہ واپسی پاکستان کے لیے ملے جلے اثرات رکھتی ہے۔ اگرچہ ان کی سخت خارجہ پالیسی کچھ مشکلات پیدا کرسکتی ہے، لیکن ان کی چین مخالف حکمتِ عملی پاکستان کے لیے کچھ مواقع بھی فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان کو اپنی سفارتی حکمتِ عملی کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ عالمی حالات سے بہتر انداز میں نمٹ سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں اور پاکستان
Feb 22, 2025