بھٹو سے گیلانی تک جمہوریت کی جنگ

سیاست آئین کے بطن سے جنم لیتی ہے ۔ آئین کی محافظ عدلیہ ہے۔ اب اس کی مرضی حفاظت کرے یا نہ کرے ۔ فوجی آمروں کے نزدیک عدالتوں کی اہمیت محض اتنی کہ ایوب خاں کے بنائے ہوئے شہر اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں عدالتوں کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں رکھی گئی ۔ پھر یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی کہ ادھر آئین بنتا ہے ادھر کوئی نہ کوئی فوجی مارشل لاء کا گرز لئے اس کا سر کچلنے کو تیار دکھائی دیتا ہے ۔56ئ کا آئین ایوب خاں کا شکار ہوا۔ 62ئکا آئین یحییٰ خاں نے اپنے پائوں تلے روندا۔بھٹو والے کل جماعتی آئین کو موت کی نیند سلانے جنرل ضیاء الحق سامنے آئے ۔ اس نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ آئین اک ردی کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے ۔ ان حادثات میں ہماری عدلیہ کا کردار؟ چھوڑیں آپ کس چکر میں پڑ گئے ۔ اب اور کیا ہو سکتا ہے ؟ والے سوالیہ مقام پر کھڑی تھی ۔
پیپلز پارٹی صرف بھٹو نے ہی نہیں بنائی تھی ۔ سب سے پہلے 1933ء میں ان کے والد سر شاہنواز بھٹو نے پیپلز پارٹی کے نام سے ایک جماعت قائم کی ۔ پھر قیام پاکستان کے بعد خان عبدالغفار خاں نے پیپلز پارٹی کے ہی نام پر ایک جماعت بنائی۔ ذو الفقار علی بھٹو نے تو کہیں بہت بعد میں پیپلز پارٹی تشکیل کی ۔ باقی اللہ نے ساری قبولیت اور برکتیں اسی بھٹو والی پیپلز پارٹی کوبخش دیں۔ عوام کی پارٹی یہی پیپلز پارٹی سمجھی گئی ۔ پھر ہماری عدلیہ نے اس پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظم شکار کئے ۔ ایک وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی کا حکم سنایا گیا۔بعد ازاں یہ حکم سنانے والی عدلیہ کے چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ وضاحتوں کے کٹہرے میں بھی کھڑے دیکھے گئے ۔بھٹو کو ہمیشہ تاریخ میں اپنے نام ، مقام کی فکر رہی ۔ آج آپ تاریخ میں ان کا روشن چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے قتل کامنظر نامہ تاریخ میں یوں رقم ہے ۔’ جب راہ وفا کے مسافر کو فراز دار پر لیجایا جا رہا تھا تو دو سپاہیوں نے بھٹو کے دونوں پائوں پکڑ رکھے تھے ۔ دو سپاہیوں نے اس کے دونوں ہاتھوں کوتھام رکھا تھا۔ بھٹو کی پشت زمین پر لگی ہوئی تھی ۔ چاروں سپاہی بھٹو کو اٹھائے مقتل تک لیجا رہے تھے ۔ زمین کے ساتھ اس کی سرکتی ہوئی قمیض کا دامن ایک سپاہی کے بوٹ تلے آگیا۔ دامن تار تار ہو گیا۔ دامن کے چاک میں اور گریباں کے چاک میں کچھ فاصلہ نہ رہا۔ یگانہ چنگیزی کے لفظوں میں ۔۔۔
؎دیکھو تو اپنے وحشیوں کی جامہ زیبیاں
اللہ رے حسن پیرہن تار تار کا
یہ جو کچھ ہوا۔ اس راہ پر رواں ہر مسافر جانتا ہے کہ اس راہ میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ عدلیہ کے شکار پیپلز پارٹی کے دوسرے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں۔ وہ بطور وزیر اعظم کمرہ عدالت میں داخل ہوئے ۔ جب عدالت سے باہر نکلے تو وزیر اعظم نہیں تھے ۔ پھانسی پانے والے وزیرا عظم بھٹو نہ ہی عوام کے دلوں سے اور نہ ہی سیاست سے باہر نہیں نکالے جا سکے ۔ اسی طرح دوسرے وزیراعظم گیلانی کو بھی سیاست سے باہر نہ نکالا جا سکا۔ان کے خلاف عدالتی فیصلے کو بھی جوڈیشل مرڈر کہا جا سکتا ہے ۔
؎تاریخ انقلاب ادھوری رہے گی دیکھ
مقتل سے میرے قتل کا منظر نکال کے
صدر ایوب اپنے صدارتی الیکشن میں سندھ پنجاب کے ان گھرانوں میں جہاں ڈی سی ،ایس پی اثر انداز نہیں ہو سکتے ، ووٹ مانگنے خود پہنچے۔ صدر ایوب کا ان کے نانامخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے ریلوے اسٹیشن کی بجائے اپنے گائوں جمال دین والی میں اپنے ڈرائنگ روم میں استقبال کیا تھا۔ 1921ء میں ان کے دادا ملتان میونسپل کمیٹی کے انتخاب میں حکومت برطانیہ کے نمائندے ڈپٹی کمشنر طارق سی کنگ کو شکست دے کر پہلے صدر منتخب ہوئے تھے ۔اس سے اس سید زادے کی خاندانی وجاہت کا قیاس کریں ۔ شاید یہ اچھی بات نہ ہو لیکن امر واقع یہی ہے کہ ہم ایسے عوامل کو اپنی سیاست سے ابھی تک باہر نہیں نکال سکے ۔ ان کا گھرانہ ملتان میں شیعہ سنی بھائی چارے کا مظہر ہے ۔ خود یوسف رضا گیلانی کابطور چیئرمین ضلع کونسل جنرل ضیاء الحق سے جلسہ عام میں نوے روزہ انتخاب کا وعدہ یاددلانا انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ ان کے سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ سنبھالنے پر اراکین اسمبلی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس موقعہ پر نواب اکبر بگٹی نے بلوچی زبان میں تقریر کی ۔ ایک ایم این اے نے رولنگ طلب کی ، کیا کوئی رکن اردو انگریزی کے علاوہ بھی کسی زبان میں خطاب کر سکتا ہے ؟ سیکرٹری اسمبلی کے مشورے پر انہوں نے رولنگ دے دی ، ہاں! کر سکتا ہے ۔
یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب میں لکھا۔ ’’میرے فون کی گھنٹی بجی۔ فون پر گرجدار لہجے میں کہا گیا۔ سپیکر صاحب ! آپ نے نواب اکبر بگٹی کو بلو چ زبان میں تقریر کی اجازت کیوں دی ؟ اس کا فوج نے بہت برا منایا ہے ۔ اس سے پیشتر کہ کوئی جواب دیا جاتا۔ فون بند ہو گیا‘‘۔ اب پیپلز پارٹی نے انہیں اسلام آباد سے سینٹ کا امیدوار بنا کر سرکار دربار کو مصیبت میں ڈال دیا ہے ۔ اس ایک بندے کی جیت کے امکان کے باعث انہیں الیکشن اوپن بیلٹ کروانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے ۔وگرنہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے موقعہ تک خفیہ رائے دہی ہی سرکا ر کے کام آئی تھی ۔ مقابلہ خوب ہے ۔ یہ کڑا بھی ہے اور کڑوا بھی۔ سینٹ کے الیکشن کا کچھ بھی نتیجہ آئے ۔ یوسف رضا گیلانی اپنی جمہوریت کیلئے جنگ جیت چکے ہیں۔