پاکستانی سفیر کا امریکہ پر جنوبی ایشیاء اور خطے میں قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے پر زور
امریکہ میں متعین پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کو کسی تیسرے ملک کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سٹمسن سینٹر کے زیرا ہتمام جیو پولیٹیکل صورتحال میں تبدیلی کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل کے موضوع پر ویب نار (سیمینار) سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اسد مجید خان نے مزید کہاکہ پاک امریکہ تعلقات بالخصوص نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات خطے میں امن، سیکورٹی اور ترقی کیلئے اہم ہیں۔ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے ساتھ ساتھ خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ جنوبی ایشیاء میں قیام امن کیلئے امریکہ کو بھارت پر دبائو ڈالنا چاہئے ۔ اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دیر پاامن کے عمل کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس امن عمل کو آگے لے جایا جائے۔
ہمارے خطے کے دو سلگتے ہوئے مسائل ہیں جو خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی امن پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پہلا ، بڑا اور دیرینہ مسئلہ ہے جبکہ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے امریکہ نے افغانستان پر یلغار کی اس سے دہشتگردی کو مزید ہوا ملی اور پاکستان بھی بری طرح اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ پھر تو دہشتگردی کا ناسور پھیلتا گیا پھولتا گیا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ ملک افغاناں کا امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر تورا بورا بنا دیا۔ طالبان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ افغانستان پر امریکہ کا قبضہ بھی ہو گیا مگر جنگ ختم ہوئی نہ ملک میں امن قائم ہو سکا۔ طالبان پہاڑوں پر چلے گئے۔ امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی جنگ بدستور جاری ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طاقت کے ذریعے افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ وہی ہونا تھا جو پٹرول سے آگ بجھانے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کرنے کی تجویز دی تو اس پر منفی ردِعمل آنے لگا۔ افغانستان میں پوری طاقت آزمانے سے بھی مثبت نتائج سامنے نہ آئے تو امریکہ اوراتحادیوں کی فرسٹریشن فطری امر تھا۔ ان کی طرف غصہ سے پاکستان پر نکالا جانے لگا۔ کچھ بھارت کے ایما پر بھی امریکہ پاکستان سے بدظن ہو رہا تھا۔ اس کی طرف سے پاکستان سے ڈومور کے تقاضے ہونے لگے۔ بات کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش، پابندیوں سے ہوتی ہوئی جنگ اور سبق سکھانے کی دھمکیوں تک جا پہنچی۔ پاکستان نے بہرصورت مذاکرات ہی پرزور دیا اور بالآخر بات صدر ٹرمپ کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہو گئے۔ براہِ راست مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری 2020ء کو امریکہ طالبان امن معاہدہ طے پا گیا۔ اشرف غنی انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات اور امن معاہدے کی شدید مخالفت کی گئی۔ بھارت کو بھی امن معاہدے سے پاکستان میں دہشتگردی کے راستے مسدود ہوتے نظر آئے وہ بھی افغان انتظامیہ کو امن معاہدے کے خلاف برگشتہ کرتا رہا۔ افغان حکمرانوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو معاہدے سے دستبردار کرانے کے لئے کئی ڈرامے کئے جن سے وہ متزلزل تو ہونے لگی مگر امن معاہدے کو برقرار رکھا۔ اب اشرف غنی حکومت جوبائیڈن انتظامیہ سے امن معاہدے کے خاتمے کی امید لگائے ہوئے ہے۔ جوبائیڈن حکومت بھی نظرثانی کی بات کر رہی ہے۔ ایسا ہوا تو افغانستان دہشتگردی سے باہر نہیں نکل سکے گا اور خطے میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا جس کے اثرات مزید شدت سے عالمی امن پر بھی مرتب ہونگے۔ خطے اور عالمی امن کے لئے بہتر ہے کہ امریکہ امن معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچائے۔
جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ، دیرینہ اور سنگین مسئلہ، کشمیر ایشو ہے جو بھارت کی توسیع پسند ذہنیت کا پیدا کردہ اور اس کی رعونت جارحیت اور عالمی اداروں کی رائے کو تسلیم نہ کرنے کے باعث سنگین تر ہو رہا ہے۔ اس مسئلہ کے باعث پاکستان اور بھارت کے مابین تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور مزید بھی بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث ہو سکتی ہے جو دونوں ممالک کے ایٹمی قوت ہونے کے باعث آخری جنگ ثابت ہو گی۔ آج کے ایٹم بم جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں۔ ان کے چلنے سے تباہی ہیروشیما اور ناگاساکی کی طرح محدود نہیں ہو گی۔ یہ کرہِ ارض کی بربادی کا سبب بنے گی۔ فتح و شکست دیکھنے والے روئے زمین پر ہونگے نہ تماشائی موجود ہونگے۔ لہٰذا ہر فرد کو ایسی تباہ کاری سے بچنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بطور ادارہ اقوام متحدہ اور ایک طاقتور ملک کے طور پر امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
کشمیر پر بھارت کے شب خون کو آج 567 دن ہو گئے ہیں۔ اس دوران کشمیریوں پر ظلم کا ہر ضابطہ آزمایا گیا قبل ازیں بھی مظالم کم نہیں ہو رہے تھے۔ پابندیوں میں کشمیریوں کو بری طرح جکڑ دیا گیا۔ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے لاکھوں آر ایس ایس کے غنڈوں کو مقبوضہ وادی میں لا بسایا گیا۔ شدت پسند ہندو سیٹھ مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ پابندیوں کے باعث انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے کشمیریوں پر بھارتی فورسز کی بربریت کے خلاف تشویش اور مذمت کا اظہار کیا جاتا ہے مگر حالات کی سنگینی اب عملیت کی متقاضی ہے۔ بھارت کے ظالم ہاتھ کو جبری روکنا ہو گا اور اس مقصد کے لیے دنیا آخری کشمیری کا بھارتی فورسز کی سفاکیت کی نذر ہونے کا انتظار نہ کرے۔ امریکہ کو اب خصوصی طور پر اس سنگین صورتحال کا نوٹس لینا ہو گا۔ جوبائیڈن حکومت کی جنوبی ایشیا کے حوالے سے نسبتاً متوازن پالیسی ہے اور وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔ امریکہ اب اس گھمبیر اور سنگین مسئلہ کے حل میں مزید تاخیر نہ کرے۔ یہی اس کی متوازن پالیسی اور انسانیت کی بقا کا بھی تقاضہ ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024