پیر ‘ 9 رجب المرجب 1442ھ‘ 22؍ فروری 2021ء
فیس بک پر بھارتی لابی نے نوائے وقت کا پیج بند کرا دیا
مگر کیا منفی ہتھکنڈوں سے حق و صداقت کی آواز کبھی دبی ہے۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جہاں بھی سچائی کی آواز کو دبایا گیا وہ زیادہ اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ نوائے وقت اس وقت کشمیریوں کی حمایت میں اُٹھنے والی سب سے توانا اور بلند آواز ہے۔ فیس بک پر 80 لاکھ صارفین اس کو پڑھتے تھے۔ حقائق سے آگہی حاصل کرتے تھے۔ بھارت کی سرگرم پاکستان دشمن شیطانی لابی نے اس آواز کو بند کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور بالآخر اس میں کامیاب ہو گئی۔ اب فیس بک والوں نے نوائے وقت کا پیج بند کر دیا ہے۔ مگر ’’دبے گی کب تلک آواز آدم‘‘ باطل کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو بالآخر اسے حق کے سامنے سرنگوں ہونا ہی پڑتا ہے۔ سچ اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ پاکستان کو بھی ہر سطح پر فیس بک انتظامیہ پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ انہوں نے ایک مقبول پیج کو کیوں بند کیا ہے۔ یہ صرف معلوماتی خبر رسانی کا کام کرتا تھا۔ اس میں کسی کی دل آزاری والا مضمون نہیں ہوتا تھا۔ صرف بھارتی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات اور کشمیریوں کی نسل کشی کے حوالے سے خبریں اور حقائق دنیا کے سامنے لائے جاتے تھے۔ ایسے معلوماتی پیج کو بند کرنا لوگوں تک صحیح معلومات کو روکنا ہے جس کی سب پاکستانی اور کشمیری مذمت کرتے ہیں اور فیس بک انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نوائے وقت پیج فوری طور پر بحال کرے۔ حقائق جاننا سب کا حق ہے ، اس پر پابندی لگانا غلط ہے۔
٭٭٭٭٭
نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت پر پرویز خٹک کے بھائی کابینہ سے فارغ
اب اس طرح ہونا ہی تھا اس طرح کے کاموں میں کیونکہ آپ حکومتی صفوں میں شامل ہونے کے بعد بھی اگر اپوزیشن کے لیے کام کریں گے تو کوئی بھی آپ کو معاف نہیں کرے گا۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ نقب لگانے میں کامیاب کون ہوا۔ مسلم لیگ (ن) والوں نے آخر کونسا ہتھیار استعمال کیا کہ سابق وزیراعلیٰ خیبر پی کے اور موجودہ وزیر دفاع کے قلعے میں بھی شگاف ڈال دیا۔ اطلاع تو یہ بھی ہے کہ لیاقت خٹک اپنے بیٹے کو ٹکٹ نہ دینے پر ناراض ہوئے۔ یہ تو سابق صدر جنرل ایوب خان والا معاملہ لگتا ہے۔ جن کا اپنا بھائی جو گھر کا بھیدی تھا ان کی ہی لنکا ڈھانے نکلا تھا۔ اب اصل بات تو لیاقت خٹک ہی جانتے ہیں۔ ان کے اس فیصلے کے بعد ان کی وزارت تو گئی مگر حزب مخالف نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے حق میں تقریب برپا کی جس میں جشن کا سماں تھا۔ ان کی تقریر کے دوران ان پر نوٹ نچھاور کئے گئے۔ اس کے برعکس ان کی جماعت پی ٹی آئی کے ہاں وہی ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ والی حالت تھی۔ اب دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ پرویز خٹک چپ ہیں مگر وہ بھائی کے اس اقدام پر خاصے جُزبُز لگ رہے ہیں۔ ایک تو ان کے اپنے حلقے سے ان کے نیچے کی سیٹ مسلم لیگ (ن) والے لے اڑے اور وہ دیکھتے رہ گئے اوپر سے ان کا اپنا بھائی بھی جو خیبر پی کے میں وزیر بھی تھا ان کا ساتھ چھوڑ گیا اور مخالفین سے جا ملا۔
پہلی دفعہ الیکشن کمشن کا عملہ چوری ہو گیا۔ مریم اورنگ زیب
بات تو واقعی بڑی حیرت کی ہے۔ آج تک ووٹ چوری ہونے کا سب نے سنا ہے۔ مگر یہ جو الیکشن کمشن عملہ جو پولنگ سٹیشن میں تعینات ہوتا ہے۔ وہ بھی ووٹوں سے بھرے بیگز کے ساتھ چوری ہو گیا۔ فارسی میں کہتے ہیں ’’گر بہ کشتن روز اول‘‘ بلی کو پہلے روز سے ڈرانا (مارنا) چاہئے۔ حقیقت بھی یہی ہے ورنہ وہ شیر ہو کر سر چڑھنے لگتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ الیکشن عملے کے چوری یا اغواء کی روایت ہمارے ہاں جڑ پکڑ گئی مضبوط ہو گئی تو پھر ہمارے الیکشنوں کا خدا ہی حافظ ہو گا۔ پہلے ہی ہمارے انتخابی نظام پر طرح طرح کے سوالات اُٹھتے ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور اُٹھتا ہے۔ نتائج میں ہیر پھیر اور ووٹ چوری ہونے کے الزامات لگتے ہیں۔ اب یہ عملہ بھی چوری ہونے کا معاملہ روکا نہ گیا تو پھر کیا ہو گا وہ سب جانتے ہیں ، کیا کمال کے لوگ ہیں ہمارے پاس۔ پولنگ سٹیشن چھوڑ کر یہ عملے والے آخر ووٹوں سے بھرے تھیلے لے کر ساری رات کہاں جا چھپے تھے کہ پوری انتظامیہ نے بھی دم سادھ لیا تھا اور پھر صبح سویرے یہ رات کے بھولے بھٹکے مسافر اچانک ووٹوں والے بھرے تھیلے تھامے برآمد ہوئے۔ وہ بھی اس طرح کہ نہ تو ان کے ماتھے پہ نہ لباس پہ کوئی شکن تھی۔ ہشاش بشاش تھے۔ شاید اسی پر
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
والا شعر کہا جاتا ہے
٭٭٭٭٭
وفاقی حکومت اڑھائی برس میں آمدن میں ایک روپے اضافہ نہ کر سکی۔ مراد علی شاہ
اگر جناب ذرا اپنی بھی کارکردگی بیان فرماتے تو لوگوں کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہتی کہ سندھ حکومت نے اس عرصہ میں بلکہ اس سے قبل کے 10 برس بھی شامل کئے جائیں تو بارہ تیرہ برسوں میں صوبے کی آمدنی میں کتنا اضافہ کیا اور اخراجات کا گراف کہاں تک نیچے لایا ۔ ہماری عادت ہے کہ ہم دوسروں کی خامیوں پر خامہ سرائی کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اپنے اندر کیا کیا خامیاں ہیں۔ ہاں اگر حکومت سندھ نے صوبے کو خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار کیا ہوتا تو پھرعوام وفاقی حکومت سے کڑی باز پرس کرنے میں حق بجانب ہوتے۔ مگر سندھ کی حالت وہی کی وہی ہے۔ اخراجات آسمانوں کو چھو رہے ہیں آمدنی کے معاملے میں ’’سر کھجانے کی فرصت نہیں اور آمدنی ٹکے کی نہیں ‘‘ والی کیفیت سامنے آتی ہے۔ اب گیند وفاقی حکومت کے کورٹ میں ہے ، وہ ذرا اپنی کارکردگی بیان کرے اور سندھ حکومت اپنی کارکردگی دکھائے۔ یوم عوام بہترین منصف ہیں وہ ہی فیصلہ کریں گے کہ کس کا حساب کتاب اچھا رہا۔ اس وقت جو کچھ وفاق اور سندھ میں چل رہا ہے وہ سب عوام دیکھ رہے ہیں۔ تین برس ہونے کو ہیں، دو برس بعد پھر میدان سجے گا ، لوگ میدان میں آئیں گے اور فاتح و مفتوح کا فیصلہ ہو گا۔ اس وقت الزام تراشیوں سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی اپنی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔
٭٭٭٭٭