بھارت عالمی دہشت گردی کا سر غنہ

پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں تیز ہونے سے ایک مرتبہ پھر عوام پریشان ہیں کہ جب دنیا پر ثابت کر دکھایا کہ دہشت گردی کاقلع قمع ہو گیا ہے تو پھر اب یہ نئے گروہ کہاں سے سر اٹھا رہے ہیں۔تازہ ترین واردات ہزارہ کے ہولناک قتل کی ہے جس کی ذمہ داری افغانستان میں موجود داعش نے قبول کرلی تھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں داعش کہاں سے آگئی۔ مگر اس سوال کا جواب کوئی ڈھکا چھپا نہیں رہا بھارت کھلم کھلا افغانستان کے صوبہ کنر میں موجود داعش کے گروہوں کی سر پرستی کر رہا ہے ،ان کو تخریبی کاروائی کی ٹریننگ دیتا ہے،اسلحہ دیتا ہے اور ڈالر دیتا ہے ۔ بھارت نے بلوچستان اور فاٹا کو خاص طور پر ٹارگٹ کر رکھا ہے جہاں اس نے بی ایل اے ،پی ٹی ایم اور مختلف فسادی تنظیموں کو براس کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان گلگت اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو اسی طرح ان کے حقوق دلووائیں گے جس طرح اکہتر میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کو دلوائے تھے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے پر تلا ہے۔ بھارتی فوج کے کمانڈر کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اب پاکستان کے خلاف فوج کشی کرنے کی ضرورت نہیں ہے خود پاکستان کے اندر ایسے غدار ار وطن موجود ہیں جو چند ٹکوں کے عوض اپنے بھائی بندوں کے خون کی ندیان بہا دیتے ہیں ۔
بھارت ایک مکار اور عیار دشمن ہے اس نے اپنی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے الٹا پاکستان پر دبائو بڑھا دیا ہے اور پلوامہ جیسے ڈرامے رچا کر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے ۔ بد قسمتی سے ہماری ماضی کی حکومتیں بھارتی پروپیگنڈے کا جواب نہیں دے سکیں جس کی بنا پر اقوام متحدہ نے قرار داد بارہ چھ سات منظور کرلی اور اس کے تحت پاکستان کی چند حریت پسند تنظیموں کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرالیا۔
سوا ارب آبادی کا ملک بھارت اپنے دبائو اور ہتھکنڈوں کے ذریعے سلامتی کونسل اور فیٹف کا رکن بھی بن چکا ہے جہاں بیٹھ کر وہ پاکستان کے خلاف فیصلے کروانے میں فعال اور سرگرم ہے ،جنرل اسمبلی کی قرارداد بارہ سو ستاسٹھ اور فیٹف کی گرے لسٹ کو اچھال کر وہ پاکستان کو بد نام کرنے کی مہم میں پیش پیش ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی ، کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں اس نے نو لاکھ فوج متعین کر رکھی ہے ، اپنے آئین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر چکا ہے ، یہ کام نہ انگریز حکومت کر سکی نہ مہاراجہ ہری سنگھ کے بس میںنہ تھا مگر بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل تین سو ستر اور آرٹیکل اڑتیس اے کو ہذف کر کے جنرل اسمبلی کے چارٹر کا منہ چڑایا ،اس نے پانچ اگست کے ایکشن کو کامیاب کرنے کے لیے ،وادی کشمیر میں لینڈ لائن موبائل فون وائی فائی بند کردی ،یہ وہ حقوق ہیں جو جنرل اسمبلی کے بنیادی حقوق کا چارٹر ہر انسان کو مہیا کرتا ہے مگر بھارت نے اس کو پائوں کی ٹھوکر سے روند ڈالا۔ وہ سوا لاکھ نو جوان کشمیریوں کو شہید کر چکا ہے ہزاروں خواتین کو گینگ ریپ کیا ،سرچ آپریشن کی آڑ میں عصمت دری کے واقعات بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ کشمیر کے تمام نوجوانوں کو تفتیشی مراکز میں منتقل کرکے لاپتہ کر دیا گیا ہے ۔حریت کانفرنسں کے لیڈروں کو تو برسوں سے نظر بند اور قید کردیا گیا ہے اب اس نے بھارت نواز کشمیری لیڈروں پر بھی پابندیاں لگا دیں ،کشمیر میں اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے وہ کسی عالمی ادارے کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے سری نگر ایئر پورٹ پر نہیں اترنے دیتا ۔
خود بھارت کے اندر اقلیتیں بھی ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں ، شہریت کا قانون نافذ کرکے مودی حکومت نے اپنے ملک کی بڑی آبادی کے سر پر تلوار لٹکا دی ہے ،سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دلی کے دورے میں بھارتی دہشت گرد فورسز نے شہر کے گلی کوچوں میں لوگوں کو تہ تیغ کیا ان کی دکانیں جلائیں اور گھر بلڈوز کیے ،امریکی صدر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے رہے اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف کی ان کی زبان نہ کھل سکی۔
بھارت کے ہاتھ میں قرارداد بارہ سو ستاسٹھ اور فیٹف کے اندھے قوانین آگئے ہیں اور وہ ان قوانین کو ایک قانونی اور اسٹریٹجک جنگ میں تبدیل کر چکا ہے آپ اسے ففتھ جنریشن وار بھی کہہ سکتے ہیں، بھارت نے جنرل اسمبلی کے اندر جعلی جاسوسی ادارے قائم کر رکھے ہیں جن کا مقصد پاکستان کے خلاف اس قانونی ہتھیار کو استعمال کرکے پاکستان کو پابندیوں میں جکڑنے کی مذموم مہم چلائی جارہی ہے ،سفارتی زبان میں اسے لا فیئر کہا جاتا ہے مگر اصل میں یہ عالمی قوانین کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
چونکہ امریکہ چین کے خلاف ہے اس لیے بھارت بھی امریکہ کی خوشنودی کے لیے چین کے عظیم الشان سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی مہم چلا رہا ہے ،سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے ، آج پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر عالمی فورم متحرک اور سرگرم ہے اور اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ بھارت کی یہ لاء فیئر یعنی قانونی جنگ سرے چڑھنے پائے۔ پاکستان کو چین کا بھرپور اعتماد حاصل ہے، ترکی اور ملائیشیا جیسے معاشی طاقتور ملک بھی پاکستان کے ہمنوا ہیں اور بھارت کو اس سائبر جنگ میں شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑے گا۔