کشمیریوں پر مظالم، جرمنی نے بھارت کو آئینہ دکھا دیا!!!

دینی و دنیاوی مشاہدے کی بات ہے کہ ظلم کی رسی درازضرور ہے مگر خدا کی لاٹھی بھی بے آواز ہے جب ظلم انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو ظالم کی رسوائی دنیا کے لیے مثال بنا دی جاتی ہے، پاک دھرتی کی آزادی سے ہی بھارت نے جنت نظیر پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اپنی ہار کا غصہ نکالنے کے لیے نشانے پر رکھا ہو اہے۔پاکستان کی بھرپور کوششوں سے اب متعصب بھارتی حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم بے نقاب ہو رہے ہیں، کشمیر پر ہونے والے مظالم پر دنیا کو احساس ہونے لگا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ظالم فوج کے بل بوتے پر ظلم و بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔پاکستان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سربراہی میں دنیا کے سامنے جس مضبوطی اور ثابت قدمی سے کشمیر کا مقدمہ نہ صرف پیش کیا بلکہ لڑا اسکی بدولت اب اقوام عالم بھی کشمیر یوں کی نسل کشی پر تشویش کا اظہار کرنے لگی ہے۔ جرمنی نے اس حوالے سے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ بھارت اور جرمنی کے مابین قریبی تجارتی و سفارتی تعلقات ہیں لیکن جرمنی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے بڑھتے ہوئے مظالم کو دیکھ کر ہتھیاروں کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے جرمنی نے مالی نقصان تو برداشت کیا ہے لیکن جرمن حکومت نے اس فیصلے سے دنیا کو یہ احساس دلانے کی کوشش ضرور کی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے سلسلے کو بڑھانے میں نہ صرف مصروف ہے بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ بھارتی اقدامات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ جرمنی نے بھارت کو ہتھیار بیچنے سے انکار کر کے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں نہ ہی معاشی و تجارتی تعلقات کو انسانیت پر برتری دی جا سکتی ہے۔ گو کہ یہ آغاز ہے لیکن اگر یہ سوچ پھیلتی ہے تو یقیناً دنیا کو احساس ہو گا کہ بھارت حقیقی معنوں میں ایک دہشت گرد ملک ہے۔ جونہ صرف کشمیر میں بلکہ بھارت کے اندر بھی بے گناہ اور معصوم انسانیت کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے، جمہوریت کا لبادہ اوڑھے بھارتی حکومت دنیا میں واقع جنت کے باسیوں پر دنیا کی بدترین آمریت قائم کیے ہوئے ہے۔ ستر بر سوں سے مظلوم کشمیریوں کی نونہال نسل کو کاٹا جا رہا ہے، خواتین کی عصمتوں سے کھلواڑ جاری ہے، بنیادی انسانی حقوق کی ماپالی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ کشمیر کے نوجوان سپوتوں کو آزادی سے جینے کا حق مانگنے، بہن بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کرنے ، حق خود ارادیت کا تقاضا کرنے اور جنت نظیر میں مذہبی آزادی کی خواہش رکھنے پر نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ ہر روز سینکڑوں کشمیری نوجوان کو انکے گھروں ، دوکانوں اور دفتروں سے غائب کر لیا جاتا ہے، کسی شہید کشمیری کا جسد خاکی گندے نالے سے ملتا ہے توکوئی جنگل میں درخت سے لٹکاملتا ہے کسی کی کاغذات میں بھارت کی مختلف جیلوں میں منتقلی کر دی جاتی ہے، کشمیری بہنیں اپنے سہاگ کی یاد میں سالوں سال آدھی بیوہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔اقوام متحدہ میں دہائیوں سے کشمیری عوام کی نشل کشی کا نعرہ بلند ہوتا آیا ہے لیکن بدقسمتی اور مسلم ممالک کی نا اہلی کے باعث کبھی جنگل کے بھیڑیے کی طرح گھات لگانے والے بھارت کو نکیل ڈالنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے جا سکے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی غیر مسلم ملک کی جانب سے انسانیت سوز رویہ اختیار کرنے پر بھارت سے مضبوط سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات کے باوجود بھی جرمنی نے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی سے انکارکردیاہے۔ اگرچہ جرمنی ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر ہندوستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تاریخی فیصلہ کر کے کشمیر یوں اور پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ جرمنی کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے چھوٹے ہتھیار ہندوستانی حکومت غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہری آبادی کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔
پانچ اگست 2019 سے فوجی محاصرے کے زریعے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں ، زرائع ابلاغ پر پابندی اور بے گناہ شہریوں پر جھوٹے مقدمات نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ عالمی برادری کی بھنویں بھی کھڑی کردی ہیں۔ کشمیری عوام بھارتی مظالم کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ انہیں مذہبی آزادی بھی حاصل نہیں ہے۔ نماز جمعہ کی اجازت نہیں، عاشورہ کے جلوسوں پر آنسو گیس کی شیلنگ سے مذہبی جذبات کو روندا جاتا ہے، نمازیوں پر لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے جلوسوں پر تشدد ہوتا ہے۔ سیاسی قیادت کو قید کیا جاتا ہے، آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیری مجاہدوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے انکے اہلخانہ کے ساتھ جانورں سے برا سلوک کیا جاتاہے، عالمی ماہرین کو کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں ملتی، غیر ملکی تو دور کی بات ہے دہشتگرد سوچ کی حامل بھارتی حکومت اور مسلمانوں کے قاتل تعصب پسند ہند و نریندرا مودی اپنے ہی سیاست دانوں کو بھی کشمیر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ بہادر اور غیور کشمیری اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں اور بھارتی جارحیت پر دنیا کو اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کرتی ہیں۔ پاکستان دہائیوں سے کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔ پاکستان کی کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ وابستگی شک و شبہ اور کسی بھی قسم کے مفاد سے بالاتر ہے۔ پاکستان ہر محاذ پر، ہر سطح پر ہر موقع پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتا رہا ہے اور اس کے لیے ہر محاذ پر اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔اقتدار میں کوئی بھی جماعت ہو تہتر برسوں سے حکومت پاکستان اور اقوام پاکستان اسی جذبے کے ساتھ کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان نے بالخصوص پانچ اگست دو ہزار انیس کے بعد دہشت گرد نریندرا مودی کی طرف سے ظالمانہ اقدامات کے بعد اقوام متحدہ، یورپی یونین سمیت ہر سطح پر مدلل انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے۔ پاکستانی عوام نے کبھی کشمیری بھائیوں کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس حوالے سے ہمیشہ مناسب اور مہذب احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ یہ احتجاج صرف اس لیے ہے کہ دنیا کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو سنجیدگی سے لے، دنیا بھارت کے مظالم کو تجارتی نظروں سے نہ دیکھے، دنیا بھارتی مظالم کو معاشی مجبوریوں کی وجہ سے نظر انداز نہ کرے بلکہ اس مسئلے کو خالصتاً انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کی نظر سے دیکھے۔
بھارتی میڈیا بھی اپنی حکومت کی بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سبکی کو رپورٹ کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جموں وکشمیر میںبھارتی دہشت گرد سکیورٹی فورسز کے انسانی حقوق کے ریکارڈ خدشات نے جرمنی کی طرف سے بھارت کو چھوٹے ہتھیاروں کے برآمد سے پہلے اپنے تخفظات کا اظہار کر دیا تھا۔جرمنی کے قواعد و ضوابط اور اقوام عالم یا ان علاقوں میں اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد ہے جہاں ان کے استعمال سے شہری آبادی اور اداروں کو براہ راست یا کسی بھی طریقے سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان کے دو سیکیورٹی عہدیداروں کے مطابق جرمن حکومت کی طرف سے ہتھیاروں بارے انکار یا پابندی یا لائسنس نہ دینے کی وجہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امام صحافت آبروئے صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کا کردار نہایت شاندار رہا ہے انکے دنیا فانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی نوائے وقت گروپ اپنی اس پالیسی پرنہ صرف قائم ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سختی سے کاربند ہے اور پانچ اگست دو ہزار انیس سے آج تک روزنامہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر مسلسل کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا اشتہار شائع ہو رہا ہے یہ اشتہار دنیا کی توجہ حاصل کرنے اور روزانہ کی بنیاد پر دنیا کوکشمیر میں جاری ظلم و بربریت کی یاد دہانی کے لیے ہے کہ کبھی تو لاکھوں کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم عالمی ضمیرکو جگا پائیں گے۔ کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور انکی آزادی کے لیے پاکستان میں مضبوط میڈیا مہم کی ضرورت ہے۔ پاکستانی میڈیا ہمیشہ بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے رکھتا آیا ہے لیکن اسے مستقل بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
حفیظ شیخ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کی اولین ترجیح قیمتوں میں اضافے کو روکنا، درآمدی اشیا پر ٹیکس میں کمی کرنا ہے۔ جبکہ اشیا کی قیمتیں نہ بڑھنے دینا بھی چیلنج ہے۔ کمزور مڈل کلاس طبقے کی مدد کیلئے حکومت اشیا کی خرید پر سبسڈی دے رہی ہے، گندم کی قلت پر چالیس لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوائی، بڑھتی قیمتیں ہر پاکستانی کو متاثر کر رہی ہیں لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ قیمتوں میں اضافے کو روکا جائے۔
وزیر موصوف کا شکریہ کہ انہوں نے کم از کم یہ تو بتایا کہ وزیراعظم بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں تو لوگ اب تک یہ جان ہی نہیں سکے تھے کہ وزیر اعظم یہ خواہش بھی رکھتے ہیں لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی مہنگائی پر لگ بھگ بارہ نوٹسز لے چکے ہیں لاور حیران کن بات یہ ہے کہ بارہ نوٹسز سے عام آدمی کو رتی بھر فائدہ ہونے کے بجائے مزید نقصان ہوا ہے، شاید وزیر موصوف نہیں جانتے کہ ساری حکومت کوشش کر رہی لیکن نجانے یہ کوشش صرف بیانات کی حد تک ہے کیونکہ مہنگائی میں نہ تو تیسری طاقت ملوث ہے نہ یہ بھارتی، امریکی یا اسرائیلی سازش ہے ، سمجھ سے باہر ہے کہ ابھی تک حکومت مہنگائی مافیا تک کیوں نہیں پہنچ سکی یا پہنچنا ہی نہیں چاہتی۔وزیراعظم عمران خان کی پڑھی لکھی، ایماندار اور من پسند وزراکی فوج بھی مہنگائی کے جن کو قابو کرنے میں ناکام ہے بلکہ مہنگائی کرنے والوں تک پہنچنے اور انہیں پکڑنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اب تو عام آدمی ایسے بیانات پڑھ کر پہلے ہنستا ہے پھر روتا ہے کہ وہ کن حکمرانوں میں پھنس چکا ہے جو مہنگائی کم کرنا چاہتے ہیں مہنگائی کم کرنے کے اجلاس بھی کرتے ہیں، بیانات و احکامات بھی جاری ہوتے ہیں، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، انکوائری رپورٹس مرتب کی جاتی ہیں لیکن مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔