چالیس سال میں یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ میرے ملک کا وزیر اعظم اپنی گھریلو غربت سے تنگ دکھائی دے رہا ہے۔اگر میں غلط نہیں ہوں تو کیا یہ درست نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہونے والی شخصیت ریاست پاکستان کی ذمہ داری میں شامل ہوجاتی ہے یعنی جب تک وہ شخصیت وزیر اعظم کے منصب پر قائم رہتی ہے تو اس کی کفالت ریاست پاکستان کو انجام دینی پڑتی ہے اس کی رہائش اس کی سیکیورٹی اس کے سفری اخراجات سے لے کر ضرورت کی ہر اشیا اس کو بن بولے مہیا کی جاتی ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب یہ شخصیت وزیر اعظم کے منصب سے فارغ ہوتی ہے تو بھی اس کو کم وبیش اسی طرح کی سہولتیں میسر رہتی ہیں اسی طرح اس کی کابینہ سمیت ا راکان پارلیمنٹ سینیٹر حضرات کو بھی کم وبیش ایسی ہی سہولتیں میسر آتی ہیں یعنی اگر یہ کہا جائے کہ قومی خزانے کا ایک بڑا حصہ حکومت اور اپوزیشن کی ذاتی مراعات پر برباد کر دیا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔چند دن پہلے وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ میری تنخواہ میں بھی میرا گزار نہیں ہوتا یعنی دولاکھ کی تنخواہ میں میرے وزیر اعظم کا گزار نہیں ہوتا تو پھر ایک غریب مزدور کا بیس ہزار کی تنخواہ میں ایک بزرگ پینشنرکا چھ ہزار پانچ سو میں کیسے گزار ممکن ہوسکتا ہے کرائے کا گھر گیس بجلی کے اضافی بل بڑھتی ہوئی مہنگائی علاج تعلیم اور دیگر ضروریات کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے اس کا اندازہ تو شاید وزیر اعظم کو اب ہوگیا ہوگابڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر دور میں معزز منصب پر فائز شخصیات اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی مراعات میں تو ہوش ربا اضافہ کیا جاتا رہا ہے مگر ایک مزدور کی تنخواہ میں ایک بزرگ پینشنر کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کر کے ہمیشہ اس کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی رہی ہے اوپر سے مہنگائی کا ایسا سونامی چھوڑا جاتا ہے کہ یہ غریب اس مہنگائی کے سونامی میں ڈوب کر مر جاتا ہے اس قوم نے حکمرانوں سے کبھی بھی اشرافیہ جیسی زندگی گزارنے کی خواہش نہیں کی کبھی اس قوم نے ارباب اختیار سے اعلی مکان کی خواہش نہیں رکھی بس دو وقت کی روٹی معقو ل روزگاربچوں کے لئے معیاری سرکاری تعلیم ان کے بہتر علاج اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر انصاف کی بھیک کے سوا کچھ نہیں مانگا ۔مگر بد قسمتی اس غریب قوم کی کہ ان کو یہ سہولتیں دینے کے بجائے روز بروز ان سے یہ مختصر سہولتیں بھی چھینی جارہی ہیں غیر قانونی تجاوزات کے نام پر غریب کا مکان گرایا جارہا ہے مزدور کی روزی کا ذریعہ ختم کیا جارہا ہے مہنگائی کا ایسا طوفان پیدا کر دیا گیا ہے کہ غریب ایک روٹی تک محدود ہوگیا ہے اشرافیہ کو نوازنے کے لئے کبھی ٹماٹر کبھی آٹا تو کبھی چینی کا بحران پیدا کر دیا جاتا ہے اور افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ موجود حکومت کے وزراء اس بحران کو بھی غیر سنجیدہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ٹماٹر کی جگہ دہی چائے بغیر چینی اور روٹی کا استعمال کم کریں ایسے مشورے دیتے ہیں جس سے غریب کے زخموں پر تیزاب ڈالا جا رہا ہو یا پھر ان تمام مسائل کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرا دیا جاتا ہے یہ وہ غیر سنجید ہ طرز حکمرانی ہے جس نے اس ملک کو بحران زدہ ملک بنادیا ہے جو حکمران ستر برس میں ۲۲ کروڑ عوام کو ایک معیاری زندگی نہیں دے سکے ہیں جو ہر روز غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کی سازش میں مصروف ہیں جو اس قوم کے مسائل کو غیر سنجیدہ سمجھ کر غریب کے مسائل کا مذاق اُڑا رہے ہیں ان سے اس قوم کو کوئی خیر کی اُمید نہیں ہونی ہیئے ۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس میں گیس بجلی پیٹرول کی قیمتوں میں استحکام اور ان میں ممکنہ حد تک کمی لانے کے حوالے سے غور کیا گیا اور عام آدمی کو ہر ممکنہ ریلیف فراہم کرنے کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا ساتھ ہی وزیر اعظم کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مہنگائی کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گئے اگر مہنگائی پر قابو نہیں پایا گیا غریب کو ریلیف فراہم نہیں کیا گیا تو ہمارا حکومت میں رہنے کا جواز نہیں بنتا ۔اگر وزیر اعظم واقعی مہنگائی کے طوفان سے بے خبر ہیں اور وہ اس بڑھتی مہنگائی سے تنگ غریب عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے سنجیدہ ہیں تو پھر یہ قوم ان کو ایک بار پھر یہ موقع دیتی ہے کہ وہ مہنگائی کے اس طوفان پر ہنگامی بنیادوں پر قابو کرنے کے لئے اپنی ذاتی کار کردگی دکھائیں ڈیڑھ سال بعد ہی صحیح کم از کم اس قوم کو مہنگائی سے تو نجات حاصل ہوسکے گی اگر وزیر اعظم کی ۲لاکھ کی تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا تو وزیر اعظم عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ بیس ہزار کمانے والا مزدور کیسے گھر کا کرایہ گیس بجلی کے بل بچوں کی تعلیم علاج اور ایک وقت کی روٹی کو ممکن بناتا ہوگا کیسے ۶۵۰۰ کی پنشن میں ایک بزرگ اپنی زندگی کا گزاراکرتا ہوگا ۔اگر ان تمام حقائق کے باوجود بھی ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت کم از کم مہنگائی کے بحران پر قابو نہ پاسکی تو جلد ملک بھر میں جرائم اور کرپشن کی شرح میں ممکنہ اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے نظر چرائے گی تو عوام اپنے فیصلے خود کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔۔۔۔۔۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024