جمعۃالمبارک‘16 ؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 22 ؍ فروری 2019ء
بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار
پر فواد خان سمیت 6 افراد کے خلاف مقدمات
کیا فواد خان بھی نیم خواندہ شخص ہیں یا نیم حکیم قسم کے مولوی صاحب کے معتقد جن کے نزدیک بچوں کو یہ قطرے پلانا حرام ہے۔ ویسے ہی جیسے کم بچہ پیدا کرنا گناہ ہے۔ حد ہو گئی ہے جہالت کی۔ جب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ایسا کریںگے تو جہلاء سے کیا شکوہ۔ پولیو کے خلاف مہم چلاتے چلاتے درجن کے قریب ہماری حکومتیں چلتی بنیں مگر یہ مہم ابھی تک کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر نہیں آتی۔ اتنے عرصہ میں اگر پوری دنیا کو ہم پولیو کے قطرے پلاتے تو وہ مہم بھی مکمل ہو گئی ہوتی مگر ہمارے ہاں ابھی تک یہی رونا رویا جارہا ہے کہ پولیو مہم جاری ہے۔ خدارا بچوں کو قطرے پلائیں۔ اس مہم میں ہمارے کئی ہیلتھ ورکر جن میں خواتین بھی شامل ہیں‘ گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو چکے ہیں۔ خطرناک علاقوں میں ہی نہیں‘ اب تو شہروں میں بھی پولیو کے خلاف قطرے پلانے والی ٹیموں کو پولیس کا تحفظ دیا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کم بچے پیدا کرنے کی مہم کی طرح یہ مہم بھی ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ آنکھوں دیکھی بات ہے کہ پڑھے لکھے کیا‘ جاہل کیا‘ لوگ ابھی تک کسی نہ کسی بہانے سے لڑ بھڑ کر سیاسی اپروچ کی تڑی لگا کر قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اب گزشتہ روز جس طرح اداکار فواد خان اور دیگر 6 افراد پر قطرے نہ پلانے کا مقدمہ درج ہوا ہے‘ یہ سلوک سب کے ساتھ ہونا چاہئے۔ جو انکار کرے‘ کوئی بہانہ کرے‘ اس کے خلاف پرچہ موقع پر درج کر لیا جائے۔ کسی کے دبائو میں نہ آیاجائے تو پولیو سے محفوظ رہ سکیں گے ورنہ جب عالمی برادری کی طرف سے پاکستانیوں ہی پر سفری پابندی لگیں گی تو پھر پتہ چلے گا کہ دوسرے ممالک میں جا کر گانے بجانے یا مزدوری کرنے پر پابندی بہتر تھی یا پولیو پر قابو پانا۔
٭٭…٭٭…٭٭
بلوچستان میں بارش‘ پانی سٹور کرنے والے ڈیم بہہ گئے
ظاہر ہے جو ڈیم مٹی اور گارے سے بنیں گے‘ وہ بھلا اچانک ہونے والی منہ زور برسات کا مقابلہ کیا کریں گے۔ بلوچستان میں اوسطاً 5 انچ سالانہ بارش ہوتی ہے۔ دشت اور صحرائی علاقوں میں جن میں مکران اور گوادر‘ آیوران‘ لسبیلہ کے علاقے شامل ہیں‘ وہاں بھی بہت کم بارش ہوتی ہے۔ اب حکومت بلوچستان نے اپنے اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ سو ان علاقوں میں بارش کے پانی کو جمع کرنے‘ سٹور کرنے کیلئے بند یا چھوٹے ڈیم بنائے جاتے ہیں جہاں سیلابی ریلے کی شکل میں آنے والا یہ بانی جمع ہو سکے اور بعد میں استعمال ہو۔ دنیا بھر میں ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔بارانی پانی کو استعمال میں لانے کا مگر بلوچستان کے تمام حکمران یہ سوچ کر کہ یہاں کون سی بارش ہونی ہے۔ مخصوص علاقوں میں ریت‘ گارا اور مٹی سے ایک دیوار ڈھلوان نما علاقوں میں بنا کر اس کا افتتاح کرتے ہیں کہ ڈیم بنا لیا‘ ایسے کئی ڈیم گوادر کے اردگرد بھی ہیں مگر سچ کہتے ہیں ’’جو شاخ نازک پہ بنے گا ‘ناپائیدار ہوگا۔‘‘ سو وہی ہو رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اس بار بلوچستان میں طویل خشک سالی کے بعد ابر رحمت برسا۔ دور دور تک بارش ہوئی۔ گھٹا دل کھول کر برسی۔ مگر نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سارے ریت یا گارے سے بنے ڈیم پانی کے پہلے ہی منہ زور ریلے کا دبائو برداشت نہ کر سکے اور اس کے ساتھ ہی بہہ گئے۔ ان کے ساتھ ہی وہ اربوں روپے بھی ڈوب گئے جو ان پر لگے تھے۔ یوں بارش کا مفید پانی جو اگر سٹور ہوجاتا تو لوگوں کے کام آتا۔ زمین کی زرخیزی بڑھتی‘ وہ ضائع ہو گیا ہے ‘کوئی ہے جو اس طرف کی لوٹ مار کا حساب کرے۔
٭٭…٭٭…٭٭
وزیراعظم بتائیں وہ اور ان کی
کابینہ کتنا ٹیکس دیتی ہے: خاقان عباسی
خاقان عباسی کو یہ کہنے کاحق حاصل ہے۔ کیونکہ رپورٹ کے مطابق وہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوںمیں پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس بات پر خوش ہونے کی بجائے وہ برہم ہیں کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی لسٹ کیوں جاری کی گئی۔ اس پر تو انہیں خوش ہونا چاہئے تھا۔
اب یہ بات وہی جانتے ہیں کہ اس ٹاپ پوزیشن کے باوجود وہ کتنا اصل زر بچا لیتے ہیں۔ مگر شکر ہے کہ وہ اتنا بھی ٹیکس ادا کر دیتے ہیں۔ ورنہ حساب اٹھا کر دیکھیں تو ان سے بھی زیادہ بڑے سرمایہ دار زمیندار، صنعتکار، صرف اتنا ٹیکس دیتے ہیں جتنا ایک سرکاری یا غیرسرکاری ملازم ادا کرتا ہے۔ یقین نہ آئے تو چند ہزار ٹیکس ادا کرنے والے امرا اور عام سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کا طرز حیات رہن سہن چیک کر لیں ایک عام آبادی کے چھوٹے سے گھر میں دوسرا پوش ایریا میں کنالوں کے وسیع بنگلہ میں رہتا ہے۔ دستیاب رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کی سعادت میاں منشاء کے حصہ میں آئی ہے۔ اب خاقان عباسی کے اس سوال کا جواب حکمرانوں کو دینا چاہئے کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ میں کون کون کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ اچھا موقع ہے حکومت کیلئے اپنی وطن دوستی اور عوام دوستی ظاہر کرنے کا۔ وہ ثابت کر دیں کہ حکومت اور کابینہ والے بھی دل کھول کر ٹیکس ادا کرتی ہے۔ کسی کو اس میں شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے جتنی ایمانداری سے عوام ٹیکس ادا کرتے ہیں اگر خواص بھی ادا کرنے لگیں تو پاکستان اپنی تعمیر و ترقی کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچ سکتا ہے۔
٭٭…٭٭…٭٭
25 ارب روپے کی مالک دنیا کی امیر ترین بلی کی دھوم
قسمت کی بات ہے۔ کہیں انسانوں کو کھانے کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور کہیں جانور بھی ارب پتی بن جاتے ہیں۔ ایسے میں تو جانوروں اور اشرف المخلوقات میں بھی اونچ نیچ کا فلسفہ اپنا رنگ دکھاتا نظر آتا ہے۔ پوری دنیا فیشن اور رنگ و نور کی چکا چوند سے معمور دنیا ہے۔ ان کی نقالی کرتے ہوئے ہمارے ہاں بھی فیشن ڈیزائنر کے نام پر ایسے لوگ سامنے آگئے ہیں جو لوگوں کی جیبیں خالی کروانے کے ماہر ہیں۔ پہلے یہ سارا کام جناب درزی سر جھکا کر احترام سے کرتے تھے۔ اب انہیں کھڈے لائن لگا کر وہی کام بوتیک والے اور فیشن ڈیزائنر نام بدل کر کرتے پھرتے ہیں۔ اب یورپ کے اس ارب پتی فیشن ڈیزائنر کو ہی دیکھ لیں۔ مرنے کے بعد بھی ایک ایسا کام کیا کہ عام لوگ اس پر واہ واہ کرتے اور اس کے رشتہ دار آہ آہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ کارل لاگر فیلڈ کے پاس ایک عدد پالتو سفید بلی تھی۔ ایسی لاکھوں سفید بلیاں دنیا بھر میں اور ہمارے ملک میں بھی گلیوں اور محلوں میں وافر تعداد میں رلتی پھرتی ہیں۔ اب کارل صاحب نے اس بلی کو جو ان کی چہیتی تھی مرنے کے بعد اپنی 25 ارب روپے کی جائیداد کا مالک بنا دیا۔ اب معلوم نہیں یہ بلی اتنی دولت ملنے کے بعد خوشی سے ناچنے لگی ہوگی یا نودولتیوں کی طرح دوسروں کو کاٹنے اورکھانے دوڑتی ہوگی کیونکہ ہمارے ہاں جب پیسہ آجائے تو لوگوں کا رویہ دوسروں کے ساتھ ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ اب اس ارب پتی بلی کو شہر بھر کے ہی نہیں دنیا بھر کے جاذب نظر بلے للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہونگے کہ وہ کسی ایک پر نظر الفت ڈال دے مگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ اس کی حفاظت پر مامور تربیت یافتہ ملازمین کیا مجال ہے جو اس تک کسی کو پہنچنے دیں۔ کیا معلوم یہ اعلیٰ نسب بلی ساری دولت فلاح و بہبود و حیوانات کے عالمی فنڈز کو عطیہ کرکے نام کے ساتھ ثوا ب بھی کمالے۔