وہی ہوا جس ڈر تھا ڈان لیکس کا براہ راست تعلق کلبھوشن سے نکل آیا جب بھارتی وکیل نے نواز شریف کے اس متنازعہ انٹرویو کو پاکستان کے خلاف بطور ثبوت پیش کردیا۔یہ کالم نگار مسلسل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ڈان لیکس کے بارے میں بار بار کھلی تحقیقات کرانے پر اصرار کرتا رہا۔ملکی سالمیت کے خلاف اس گھناؤنے کھیل میں کئی اور نواز شریف کے ساتھ برابر کے شریک تھے جس کی تمام تفصیلات 2017 میں انہیں کالموں میں بیان کی گئی تھیں۔اپنے اختتامی دلائل میں پاکستانی وکیل خاور قریشی نے کہا کہ بھارت اور کلبھوشن کا اس سماعت سے کوئی تعلق نہ ہونے کا بھارتی مؤقف مضحکہ خیز ہے، ایک طرف بھارت نے عالمی عدالت سے رجوع کیا اور دوسری طرف پاکستان کے سوال کا جواب دینے سے بھارت تحریری انکار کر چکا ہے۔بھارت نے کمانڈرکلبھوشن یادیو کی شہریت کا ہی اعتراف نہیں کیا تو قونصلر رسائی کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہے، بھارت بتائے قونصلر رسائی معاہدے کا کلبھوشن پر اطلاق کیونکر ہوتا ہے۔
وکیل خاور قریشی نے استفسار کیا کہ کلبھوشن یادیو کی شہریت سے متعلق ابھی تک فیصلہ نہیں کیا گیا، بھارت نے نہیں بتایا کہ وہ حسین مبارک پٹیل ہے یا کلبھوشن یادیو، جب ایک شخص کی شناخت مصدقہ ہی نہیں تو قونصلر رسائی کیسے دی جاسکتی ہے۔پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت کل بھوشن کیلئے قونصلر رسائی کیسے مانگ سکتا ہے کہ ایران میں ویزے پر وہ مسلمان تاجر حسین مبارک پٹیل تھا جس کا پاسپورٹ دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے والے برطانوی ادارے نے درست قرار دے دیا ہے۔
24 فروری 2017 کوکالم ردالفساد'کل بھوشن یادیو اور جنرل باجوہ کے موضوع پر لکھا تھا:’’کل بھوشن یادیو کا ذکرکرکے سپہ سالار جنرل باجوہ نے سوئے درد جگادئیے ،کل بھوشن یادیو کو رہا کرانے کیلئے پس پردہ رابطے عروج پر تھے اگر بھارتی دہشت گرد جاسوس یادیو’’ان کے‘‘قبضہ میں ہوتا تو شاید کب کارہا ہوچکا ہوتا۔ اب اس پر تو آرمی ایکٹ کے تحت سبوتاژ اور دہشت گردی کے جرائم کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہیں، شکریہ جنرل باجوہ صاحب! بہت شکریہ ، آپ واقعی دہشتگرد کل بھوشن یادیو کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدہ ہیں تو مولانا ساجد میراور ڈان لیکس کی تحقیقات کو منظرعام پر لانا ہوگا۔کل بھوشن یادیو کی رہائی پاک بھارت دو طرفہ معاملہ نہیں رہا اس کیلئے بڑے بڑے عالمی کھلاڑی پس پردہ مصروف عمل ہیں جن میں سے ایک صاحب تو بے چین اور بے تاب ہوکر میدان میں آگئے تھے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے۔جرمنی کے ممتاز سفارت کار،اسلامی دنیا اور اس کے اْمور پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ڈاکٹر گنٹرملائک جو عملی زندگی کے 40 برس پاکستان سمیت تمام اہم اسلامی ممالک میں سفیر سمیت مختلف سفارتی مناصب پر ذمہ داریاں ادا کرچکے ہیں۔کلبھوشن یادیو مقدر کاسکندر نکلا۔ ایسا خوش بخت جاسوس، دہشت گرداورتخریب کار، حاضر سروس بھارتی فوجی افسر جسے پاکستان میں ہمدردہی نہیں، وکیل بھی میسر آگئے تھے۔کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کا انکشاف ہوتے ہی بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس ’معصوم‘ مسلمان بھارتی تاجر حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے جیش العدل نامی گروہ کے ذریعے ایران سے اغوا کرایا لیکن اجیت کمار ڈول کے یہ شاطر حکمت کارحسین مبارک پٹیل کے بھیس میں کلبھوشن یادیو کی موجودگی کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکے تھے کہ کلبھوشن یادیو’ حسین مبارک پٹیل کے بھارتی پاسپورٹ پر کیوں ایران میں موجود تھا؟ کل بھوشن یادیوکی گرفتاری کے حوالے سے بھارتی موقف کو ثابت کرنے کیلئے عالمی سطح پر گھن چکر چلایا گیا اور جرمنی کے مایہ ناز سفارت کار اورمشرق وسطیٰ امور پر مستند دانشور ڈاکٹر گنڑملائک کو میدان میں لایا گیا، موصوف پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کی تمام اہم ریاستوں میں بطور سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں وہ جرمنی کے خصوصی نمائندہ برائے مکالمہ مسلم دْنیا کے بلند پایہ منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔ممتازدانشور اور سفارت کار کا بھارتی موقف کی تائید کیلئے میدان میں لایاجانا ، جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی اہمیت کوواضح کرتا ہے۔ جرمن سفارت کار، یکم اپریل 2016کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز، کراچی میں بہار عرب کے حوالے سے طویل خطاب کرتے ہوئے اچانک اپنے موضوع سے ہٹ کر فرماتے ہیں کہ پاک چین تجارتی راہداری کامنصوبہ ( CPEC)پاکستان پر جنت کا دروازہ نہیں کھول دیگا۔ انتہائی عامیانہ زبان میں ،جس کا سفارت کاری کی شائستہ کلامی سے دوردورکاکوئی تعلق نہیں تھا، یہ گفتگو حیران کن تھی جرمن سفارت کارنے یہ چونکا دینے والا انکشاف بھی کیاکہ کلبھوشن یادیو کو طالبان نے ایران سے اغوا کرکے پاکستان کوبیچا تھانہ کوئی ثبوت نہ کوئی دلیل ،اتنا بڑا الزام لگایا اورروانی سے آگے بڑھ گئے۔
ڈاکٹر گنٹرکا لیکچر 43منٹ 19سکینڈ پر محیط تھا وہ تحریری مسودہ دیکھ کر گفتگو کررہے تھے، نپی تلی باتیں، سفارت کار بھی ایسا جو اپنے موضوع پر حددرجہ مہارت رکھتا ہو 35ویں منٹ پر ڈاکٹر گنٹر نوٹس دیکھتے ہوئے پاک چین تجارتی راہداری (CPEC) کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہوشیار، خبردار چین تمہارے لیے جنت کادروازہ نہیں کھول دیگا اور پھر انکشاف کرتے ہیں کہ بھارتی جاسوس (کلبھوشن یادیو) کوطالبان نے ایران سے اغوا کرکے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ بیچا تھا۔
ڈاکٹر گنٹر بھارتی حکومت کا سرکاری موقف بیان کرکے رخصت ہوگئے انہوں نے اس پیچیدہ کھیل میں اپنا کردار بہ احسن ادا کردیا جس کے بعد اصل کہانی شروع ہوتی ہے 2اپریل کو انگریزی اخبار میں خبر شائع ہوتی ہے جس کے آخر میں دونوں متنازعہ جملے موجود ہیں
ڈاکٹر گنٹرملائک کے لیکچر کی اس طرح غیر اہم اور توہین آمیز اشاعت پر بھارت کوثبوت فراہم کرنے کے مشن پر کام کرنیوالے چالبازوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے تو وہ کھل کر سامنے آگئے اوراس روزنامہ میں شائع ہونے والی یہ غیر اہم خبراگلے روز 3اپریل کو جنگجو گروپ نے اپنے اخبارات میں شہ سرخی کے ساتھ نمایاں شائع کی۔پاکستان میں یہ خبر شائع کرکے بھارت کو ثبوت فراہم کیا گیا ہے کہ پاکستانی اخبارات بھی کلبھوشن یادیو کے ایران سے اغو ااور پاکستان کو فروخت کی ’مصدقہ‘خبریں شائع کررہے ہیںتاکہ عالمی سطح پر بھارت اس خبر کو دلیل کے طور پرپاکستان کے خلاف استعمال کرسکے۔
کلبھوشن یادیو ،اکھنڈبھارت کا جانبازگوریلا ہم سے بلوچستان چھیننے آیاتھا پکڑا گیا تو پاکستان میں اسے شردھالو وکیل اورگواہان صفائی میسر آگئے۔ جوبڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ’را'تو بیرون ملک دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوسکتی کہ یہ اس کے دستورعمل میں شامل نہیں ہے البتہ پٹھان کوٹ میں لڑاکو حملہ آور پاکستان سے گئے تھے۔
جنرل صاحب! کلبھوشن یادیوکے معاملے کو واقعی منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدہ ہیں تو آپ کو ڈاکٹر گنٹرملائک کو پاکستان مدعو کرنیوالے بدکرداروں کو سامنے لانا ہوگا۔ پاکستان کا کھانے والے سرکاری وسائل اڑانے والے سیاہ روچڑی ماروں کو بے نقاب کرنا ہوگاجوپاکستان میں رہتے ہوئے بھارت کے گن گاتے ہیں اور’را ‘کی وکالت کرتے ہیں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے
پاک چین تجارتی راہداری(CPEC) کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور بلوچستان میں بغاوت کی آگ بھڑکانے میں سب دوست دشمن یکجا اور متحدہیں۔ بدقسمتی تویہ ہے کہ ان عالمی طاقتوں کو پاکستان میں بھی دوست اور مددگار میسر ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی رہائی کیلئے صرف مودی بے تاب نہیں افسوس صد افسوس عظیم ترجنوبی ایشیااور سرحدوں کے بغیر جنوبی ایشیا کے نقشے بنانے والے بھارتی موقف کی حمایت میں پاکستانی سرزمین پر ثبوت گھڑتے رہے ہیں۔ بھارتی نیوی کا حاضر سروس کلبھوشن یادیو جاسوسی کی دنیاکاادنیٰ پیادہ نہیں بلکہ اکھنڈ بھارت کا ایساجان فروش ہے جس نے رضاکارانہ طور پر دشمن کی سرزمین پر پنجے گاڑ نے کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اسے ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی لے ڈوبی کہ وہ بلوچستان کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھ بیٹھا تھا۔وہ یہ حقیقت بھول گیا کہ جاسوس علاقے فتح نہیں کیا کرتے اوربلوچستان ، مشرقی پاکستان نہیں ہے‘‘۔
13 اپریل 2017 کو ‘‘لاوارث کون ؟دہشت گرد کل بھوشن یا پاکستان ‘‘ میں عرض کیا تھا:’’دہشتگردکل بھوشن یادیو لاوارث نہیں،اسکی ماں اورپاکستانی بھائی اسے بچانے کیلئے میدان میں نکلے ہیں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے بھارتی سینیٹ ،راجیہ سبھا میں اعلان کیا ہے کہ کل بھوشن بھارت کا عظیم سپوت ہے ،میرا بیٹا ہے جس کی جان بچانے کیلئے ہم آخری حد تک جائینگے ہر ممکن اقدامات کرینگے۔کل بھوشن کاپاکستانی بھائی چڑی مارکیسے خاموش رہ سکتا تھا وہ منگل 11اپریل 2017کو سرشام ٹی وی کی جادئوئی سکرین پر نمودار ہوکر بڑے تکبر سے اعلان کرتا ہے " کل بھوشن یادیو تک بھارت کو قونصلر رسائی دے دی جائے گی (جوکہ تمام تر کوششوں کے باوجود ممکن نہ ہوسکی) کل بھوشن کی معافی کی اپیل بھی کی جائیگی لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوگابلکہ اسٹے (Stay)چلے گا، یہ کل بھوشن کی سزائے موت پر بیٹھے رہیں گے، اگلے دس پندرہ سال کے اندر کل بھوشن کاکرنل حبیب کے ساتھ تبادلہ ہوسکتا ہے ، اگر ایسا نہیں ہوا تو دونوں جیل کاٹیں گے" (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024