متحدہ میں مفاہمت کے امکان معدوم
الطاف مجاہد
ہفتہ رفتہ کا آخری دن یعنی اتوار سندھ میں سیاسی گہما گہمی سے عبارت رہا۔کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے انٹرا پارٹی الیکشن تھے جس میں فاروق ستار دوبارہ منتخب ہوئے سکھر کے سلیم بندھانی ، حیدر آباد کے سہیل مہندی اور سندھ کے دیگر شہروں کے ارکان بھی رابطہ کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے لئے چنے گئے اور ان کی حمائت پی آئی بی مرکز کو حاصل ہے اس سے قبل بہادر آباد والے کنور نوید اور عامر خان نے حیدر آباد متحدہ کی زونل کمیٹی کو تحلیل کر دیا تھا جس سے اشارہ ملا کہ حیدر آباد بھی پی آئی بی کے ساتھ ہے یوں لگتا ہے کہ اندرون سندھ فاروق ستار کو پذیرائی مل رہی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر میں بانی تحریک کے موجودہ قیادت تک تنظیم کو کئی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہلی بغاوت تو حیدر آباد کے شبیر ہاشمی کی تھی۔ جسے لوگ بھلا چکے ہیں۔ پھر عامر خان ، آفاق احمد اس کے بعد تو شمعون ابرار سمیت کئی نام سامنے آئے۔ اے پی ایم ایس او میں بغاوت ڈاکٹر سلیم حیدر کی تھی جو اب مہاجر اتحاد تحریک چلاتے ہیں۔ یہاں بھی ندیم مرزا کے آنے کے بعد بہارالدین شیخ سمیت متعدد سینئر ہو گئے۔ فی الوقت تو سلیم شہزاد ، سلیم حیدر ، مصطفیٰ کمال ، خالد مقبول اور فاروق ستار کے ساتھ ساتھ نواب شاہ کے سہیل ہاشمی بھی مہاجر قومی جرگہ کے نام سے مصروف عمل ہیں ۔ پریس کلب اجتماع میں انہوں نے اسے مہاجر قومی پارٹی کا نام دے دیا تھا لیکن ہنوزیہ بیل پنڈھے نہیں چڑھی اور صحافی و سیاسی کارکن سہیل ہاشمی بھی اپنے محدود حلقے میں مصروف عمل ہیں اور یوں لگتا ہے کہ انتشار کی یہ سیاست کراچی سے حیدر آباد ، سکھر ، نواب شاہ اور میر پور خاص و ٹنڈرالہیار تک پھیل مہاجر ووٹ بنک کو مزید منتشر کر دے گی۔ جس کا فائدہ لامحالہ پیپلز پارٹی کو پہنچے گا کہ اب کراچی ، حیدر آباد کا حکومت مخالف رجحان آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے۔ متحدہ کے انٹرا پارٹی الیکشن والے روز ہی حیدر آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ انہوں نے سابق اتحادی آصف زرداری اور موجودہ اتحادی میاں نواز شریف کو ڈنکے کی چوٹ پر للکارا اور کہا کہ ان دونوں کے ہوتے ملک میں خوشحالی نہیں آ سکتی جے یو آئی کے سربراہ نے وڈیرہ شاہی کی سیاست کے خاتمے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ ادارے آئینی ذمہ داریوں تک محدود ہیں۔ پارلیمنٹ کو بالا دستی ملنے چاہئے۔ مولانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کے پی کے میں عمران اور زرداری کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ دوران خطاب ان کا کہنا تھا کہ عوامی قوت اور حمایت ہمارے ساتھ ہے لیکن ہمیں اقتدار میں آنے سے روکا جا رہا ہے جے یو آئی سندھ کی سیاست میں کبھی فیصلہ کن پوزیشن کے حامل تو نہیں رہی لیکن امروٹ ، بائی جی، ہالے جی سمیت کئی خانقاہوں کے حلقہ اثر ، دیو بندی مدارس کے زنجیدہ اور شہید خالد سومرو کی سندھ حمایت سوچ کے باعث عوامی طاقت ضرور بن چکی ہے۔ سکھر ، نواب شاہ، لاڑکانہ اور اب حیدر آباد کی جلسہ گاہ میں اسلام زندہ باد کانفرنس کے کامیاب اجتماع نے جمعیت کے کارکنان کے حوصلے ضرور بڑھا دیئے ہیں متحدہ مجلس عمل کے احیاء سے دینی ووٹ سندھ میں مجتمع ہوا تو اس کے کسی نہ کسی حد تک مثبت نتائج جے یو ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیٹ سکتی ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان کے نصف درجن سے زائد دھڑے اور تحریک لبیک پاکستان کی موجودگی بریلوی قیادت کو شاید ہی فائدہ پہنچائے جمعیت علمائے پاکستان نیازی کے چیف آرگنائزر صاحبزادہ احمد عمران نقشبندی کہتے ہیں کہ ہماری کوشش ہے کہ درود والوں کو الیکشن سے قبل اکٹھا کر لیا جائے تاکہ عاشقان رسولؐ بھی پارلیمانی سیاست میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جی یو پی نیازی کے سربراہ پیر معصوم نقوی نے اس حوالے سے مذاکرات کئے ہیں جن کا مثبت نتیجہ جلد سامنے آنے کی امید ہے اتوار کو ہی تیسرا پاور شو گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس کا تھا۔ جس کی اصل طاقت پیر پگاڑا ہیں۔ حیدر آباد اور سکھر کے بعد مورو میں جلسہ کئی سوال اٹھا گیا ایک یہ کہ اس میں ن لیگ کی کمی محسوس کی گئی۔ ن لیگ کے اتحادی ہونے کے ناطے فنگشنل لیگ اور این پی پی مرتضیٰ جتوئی جو دونوں وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جلسے کے مقررین میں شامل تھے۔ نواز شریف سیاسی ناطہ توڑنے والے عرفان مروت ، غوث علی شاہ اور ارباب رحیم نے بھی خطاب کیا گو کہ ذوالفقار مرزا ، تحریک انصاف کے لیاقت جتوئی اور عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو بھی خوب گرجے اور برسے۔ لیکن ممتاز بھٹو ، پھر چونڈی کے پیر عبدالخالق کی کمی محسوس کی گئی خاص بات پی پی ورکرز کے سربراہ اور ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی کی تقریر تھی یوں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف ، پیر پگارا کا اشتراک عمل سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت جمعیت علمائے اسلام کو بھی قریب لے آئے گا یا سندھ میں جی ڈی اے ، مجلس عمل کا ملاپ مجبوراً ن لیگ کو بھی جوائن کرنا پڑے گا کہ وہ بھی سندھ سے پی پی کے اقتدار کا خاتمہ چاہتی ہے اس طرح حالات کے جبر کا کڑوا گھونٹ سب ہی کو پینا پڑے گا۔ پیر پگارا نے اپنے خطاب میں پی پی ہی کو نہیں ن لیگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی اداروں کے خلاف محاذ آرائی پر ’’حشر خراب‘‘ ہونے کی پیش گوئی کی۔ کیا بھان متی کا کنبہ یکجا رہ سکے گا؟ اور متحدہ کے داخلی انتشار کا فائدہ پی پی سمیٹے گی۔ یہ سوال سپر ہائی وے ، انڈس ہائی وے اور قومی شاہراہ کے چھپرا ہوٹلوں سے رابطہ ٹرکوں کے چائے خانوں پر زیر بحث ہے۔