جمعرات ‘ 5؍ جمادی الثانی 1439 ھ ‘ 22؍ فروری 2018ء
شہباز شریف بہتر وزیراعظم ثابت ہوں گے۔ وفاق میں آئندہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہو گی: پرویز مشرف
معلوم نہیں ہمارے سابق کمانڈو صدر کی آنکھ کھل گئی ہے یا انہوں نے عالم تخیل میں اسلام آباد میں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے پرچم لہراتے دیکھ لئے ہیں۔ کہاں کل تک وہ مسلم لیگ ن کا بوریا بستر اسلام آباد سے گول ہوتا دیکھ رہے تھے، آج وہ وہاں ایک بار پھر ن لیگ کی حکومت دیکھ رہے ہیں۔ یہ کایا کلپ کیسے ہو گئی۔ کیا انہیں آنیوالے الیکشنوں کے حوالے سے کوئی گن سن مل گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو لگتا ہے وہ جلد ہی اپنی اور دیگر مردہ قسم کی مسلم لیگوں کی قیادت کر کے اسلام آباد فتح کرنے کے دعوے سے بھی دستبردار ہو جائیں گے کیونکہ انہیں لگ رہا ہے کہ صفر جمع صفر ہمیشہ مساوی صفر ہی ہوتا ہے۔ اب انکے بقول میاں شہباز شریف اچھے وزیراعظم ثابت ہو سکتے ہیں تو یہ کہیں ان کا کھلا اشارہ تو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اب یہ بات یقینی ہے کہ اپنے تمام تر اعلانات کے باوجود پرویز مشرف پاکستان تشریف نہیں لائیں گے۔ اگر انہوں نے آنا ہوتا، یہاں سیاست کرنی ہوتی تو وہ ایسا بیان کبھی نہ دیتے۔ وہ تو لگتا ہے ’’چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ‘‘ والی بات دل سے لگا بیٹھے ہیں۔ امید ہے اب باقی یک رکنی اور نمائشی قسم کی مسلم لیگوں کے رہنمائوں کو بھی چین آ گیا ہو گا اور وہ بھی اپنی اپنی تانگہ پارٹیوں کا رخ اسلام آباد سے واپس اپنے اپنے شہروں کی طرف کرنے کا سوچ رہے ہونگے کیونکہ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا، اب مشرف صاحب واپس آ کر مسلم لیگوں کا کوئی اتحاد بنا کر اسکی قیادت نہیں کر سکیں گے۔
٭…٭…٭…٭
ہیمبرگ جرمنی میں 100 سے زیادہ شادیاں کرانے والا درخت
یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہیمبرگ کا یہ درخت میرج آفس بنا ہوا ہے جس کے تنے میں بنے سوراخ میں شادی کے خواہشمند آ کر اپنا اپنا رقعہ ڈال جاتے ہیں، ظاہر ہے اس رقعہ میں کوئی داستان امیر حمزہ تو لکھی نہیں ہو گی کیونکہ آج کل اتنا فارغ وقت کسی کے پاس نہیں کہ ایسی داستانیں تحریر کر کے وقت ضائع کرے اور نہ ہی کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ ایسی طویل کہانیاں پڑھ پڑھ کر وقت ضائع کرے۔ بہرحال قصہ مختصر یہ 500 سال پرانا برگد کا درخت اب چاہے اسے میرج بیورو کا آفس سمجھ لیں یا لولیٹروں کا ڈاکخانہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں اب تک سو شادیاں کرا چکا ہے یعنی شادیاں کرانے کی سنچری پوری کر چکا ہے۔ شادی کے خواہشمند لڑکے اور لڑکیاں اس درخت کے تنے میں بنے ایک قدرتی سوراخ میں اپنے اپنے کوائف پر مبنی خط ڈال دیتے ہیں جو شاید ہر آنیوالا پڑھتا ہے، پھر اسکے بعد جسے جو پسند آئے وہ اس سے رابطہ کر کے اپنا مقدر آزماتا ہے۔ اگر ستارے مل گئے میرا مطلب ہے دل مل گئے کیوپڈ کا تیر کارگر ثابت ہوا تو یہ جوڑا …؎
دل سے ملے دل دور ہوئی مشکل دل سے ملے دل
مشکل سے ملے پر مل ہی گئے ہیں آخر آج یہ دل
کی لے پر بانہوں میں بانہیں ڈالے شادی کر لیتے ہیں اور زندگی کے نئے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بنا کسی خرچ کے بنا کسی فارم کے آسمان پر بننے والے جوڑے زمین پر مل جاتے ہیں اور اپنی نئی دنیا بساتے ہیں۔ روایتی طور پر مغرب کے مقابلے میں مشرق زیادہ توہماتی نظریات کا معتقد ہے مگر آج تک ایسا کوئی درخت تو کجا کوئی مسجد، کوئی مندر، کوئی گرجا نظر سے نہیں گزرا جس میں شادی کے خواہشمند ایسے رقعے لکھ کر ڈالتے ہوں جہاں سے انہیں اپنی شریک حیات ہمسفر ملی ہو۔
٭…٭…٭…٭
پٹرول کی قیمت میں ڈیڑھ روپے فی لٹر اضافے کا امکان
نجانے کیوں لگتا ہے حکومت عوام کو پٹرول بم مار مار کر ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس پھرتی سے عمران خانی دھرنوں میں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی تھی اس سے عوام کے دلوں میں حکومت کیلئے بے پناہ پیار پیدا ہو رہا تھا مگر اندر ہی اندر لوگ دعائیں بھی کر رہے تھے کہ یہ دھرنے جاری رہیں تاکہ قیمتوں میں کمی کا تسلسل برقرار رہے مگر خان صاحب بھی جھنڈی دکھا گئے۔ پھر اسکے بعد کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’ساس ہمارے گھر نہیں ہم کو کسی کا ڈر نہیں‘‘ حکومت کو جیسے ہی دھرنے کے سردرد سے نجات ملی اس نے فوری طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ ابھی تک جاری ہے۔ ہر ماہ حکومت نہایت ڈھٹائی سے کبھی 8 روپے، کبھی 6 روپے اور کبھی 3 روپے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نان سٹاپ چکر چلا رہی ہے اور عوام کی چیخیں نکلوا رہی ہے۔ ابھی لوگ پچھلے اضافے کے صدمے سے سنبھل نہیں پاتے کہ ایک بار پھر اضافہ کا اعلان ہو جاتا ہے۔ ابھی یکم مارچ دور ہے مگر ابھی سے حکومت نے پٹرول کی قیمت میں ڈیڑھ روپے اضافہ کا روح فرسا امکان ظاہر کر دیا ہے۔ امکان تو تب جب کچھ ممکن نہ ہو یہ تو کھلم کھلا اضافہ ہے جس سے نجات کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ عمران خان ایک بار پھر دھرنا دینے نکلیں۔ شاید اس طرح عوام کو پٹرول کی قیمت میں اضافے سے نجات ملے!
٭…٭…٭…٭
امریکہ میں اسلحہ کی روک تھام کیلئے طلبہ میدان میں آ گئے
امریکہ میں جس طرح عام اور خطرناک اسلحہ کی بھرمار ہے، اسکے اثرات اب اپنا رنگ دکھانے لگے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر طیش میں آ کر خطرناک آتشیں اسلحہ کا استعمال صرف امریکہ ہی کیا پورے یورپ میں عام ہو گیا ہے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ اگر یہ اسلحہ کسی مسلمان کے ہاتھ سے چلے یا نکلے تو اس پر فوراً دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ اگر کسی غیرمسلم کے ہاتھ سے چلے یا نکلے تو اسے ذہنی مریض قرار دیا جاتا ہے۔ اسی دوغلی پالیسی کا شاخسانہ گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک سکول میں ایک طالب علم کے ہاتھوں متعدد دوسرے طلبہ کی ہلاکت کے المناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس واقعہ نے امریکی طلبہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ ملکی سطح پر امریکی معاشرے میں اسلحہ کی کھلم کھلا خرید و فروخت اور رکھنے کی اجازت پر سراپا احتجاج ہیں۔ امریکی طلبہ کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے۔ معاشرے میں اگر ہر شخص کو اسلحہ رکھنے کی اجازت ملنے لگے، وہ بھی بنا کسی لائسنس کے تو پھر قتل و غارت گردی، لوٹ مار پر قابو اپنا ایک خواب بن جاتا ہے۔ خود ہمارے ہاں بھی ناجائز اسلحہ کی بہتات اس بات کا ثبوت ہے۔ اسی ناجائز اور مہلک اسلحہ کی وجہ سے بہت سے سرپھرے اغوا، ڈکیتی اور قتل جیسی وارداتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ کیا غریب کیا امیر اس میں سب برابر کے شریک ہیں۔ غریب اپنی بھوک کے ہاتھوں اور امیر صرف تھرل اور ایڈونچر پسندی کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں اسلئے صرف امریکہ ہی کیا ہمارے حکمرانوں کو بھی خطرناک آٹومیٹک اسلحہ کے لائسنسوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ ناجائز اسلحہ کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات کرنا ہوں گے اور ہمارے طلبہ کو بھی اپنی آواز بلند کرنا ہو گی۔