ایک طرف پاکستان پر امریکہ کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے جیسے الزامات کا بیانیہ زوروں پر ہے۔ اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے امریکہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ گزشتہ برسوں میں مختلف مواقع پر پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی جرنیلوں نے شمالی و جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی کے اپنے دوروں کے بعد پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف کامیابیوں کو سراہا ہی نہیں بلکہ حیران کن خوشی کا اظہار بھی کیا کہ دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں مورچہ زن دہشت گردوں کو پاک فوج کس طرح شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ گہری کھائیوں اور بلند و بالا پہاڑی چٹانوں کے درمیان گھپاؤں کی شکل میں غاروں کے جنگل میں چھپے کسی بھی مسلح گروہ سے لڑنا اور ان پر فتح حاصل کرنا کس قدر مشکل اور کبھی کبھار ناممکن ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات امریکی سیاستدانوں کو شاید سمجھ نہ آئے لیکن فوج کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کو اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی امریکی جرنیل افغانستان میں اسی طرح کے پیچیدہ جغرافیے میں گزشتہ 16 برسوں سے سر ٹکرا رہے ہیں لیکن سوائے ناکامیوں کے ان کے حصے میں کچھ نہیں آیا تاہم اپنے ان دوروں کے دوران امریکی جرنیلوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغانستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں معلومات یا ذرہ بھی آگاہی ہوتی تو وہ اس کا اظہارضرور کرتے ویسے بھی ان مہمان جرنیلوں کو برقع پہنا کر نہیں ہیلی کاپٹروں میں دن دیہاڑے ان علاقوں میں لے جایا گیا تھا جو 2001 کے بعد سے امریکہ اور بھارت کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے نرغے میں تھے۔ علاوہ ازیں پاک افغان سرحد پر پاکستان کی طرف سے خاردار تاروں کی باڑ تعمیرکرنے جیسے اقدامات اور دونوں ملکوں میں آزادانہ آمدورفت کو سفری دستاویزات کے تابع لائے جانے کی وجہ سے کم از کم پاکستان کی طرف سے افغانستان میں داخلے جیسے الزامات افغان حکومت یا وہاں تعینات امریکی فوج نہیں لگا سکتی اور پھر کابل میں 13 فروری کو چیف آف ڈیفنس کانفرنس سے خطاب کے دوران جب پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ’’ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں‘‘ تو اس سے بڑھ کر یقین دہانی اور اپنی سلامتی کے حوالے سے خدشات کا اظہار اور کیا ہو سکتا ہے۔
لیکن افغان حکمرانوں اور امریکہ کو احساس ہی نہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہی افغانستان میں ان کیلئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں جس کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت کی افغان معاشرے میں مداخلت اور امریکہ کی طرف سے افغانیوں کو بنا زندگی کی جدید سہولیات فراہم کئے ماڈرن بنانے کی کوشش ہے۔ امریکی اس خبط میں مبتلا ہیں کہ وہ جوان افغان لڑکیوں کو چست پتلونیں اور ٹی شرٹس پہنا کر اور افغان نوجوانوں کو مغربی ممالک کے سرمائے سے چلنے والی این جی اوز میں ملازمتیں فراہم کر کے افغانیوں کو اپنی سرزمین پر قابض غیر ملکی فوج کے خلاف مزاحمت سے روک سکتے ہیں یا پھر جدید جنگی جہازوں سے پھینکے گئے بموں کی تباہ کاریوں کے ذریعے افغانستان میں قیام امن کو ممکن اور اپنے قبضے کو دوام بخش سکتے ہیں تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو افغانستان کے 70 فیصد علاقے پر طالبان کی گرفت کے سلسلے میں امریکہ کے اپنے ایک ادارے کی طرف سے مرتب کردہ رپورٹ کی صورت میں انکے سامنے ہے اور اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ افغان عوام اپنے صدر اشرف غنی کے اہل خانہ کو بھی موضوع بحث بنانے لگے ہیں۔ گو یہ خبر امریکی میڈیا ہی کے توسط سے افغان عوام تک پہنچی کہ ان کی خاتون اول بیگم اشرف غنی محترمہ رولا غنی کٹر کیتھولک باعمل مسیحی خاتون ہیں جو کہ افغانستان میں عیسائیت کے فروغ میں سرگرم ہیں جس میں انہیں اپنے امریکی شہریت رکھنے والے بیٹے طارق غنی اور دختر مریم غنی کی مکمل معاونت حاصل ہے۔ مریم من ہٹن سکول آف آرٹس اور نیویارک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد صحافت کے علاوہ ’’نائن الیون‘‘ کے بعد امریکہ میں غیر ملکی مسلمان آباد کاروں پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے مختصر دورانیے کی دستاویزی اور آرٹ فلموں کی تیاریوں میں 2004 سے مصروف رہیں جس میں مریم کو بھارتی نژاد برہمن چترا گھنیش کا تعاون حاصل تھا۔ اسی طرح صدر اشرف غنی کا بیٹا جو واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں بطور پروفیسر تدریس کے فرائض سرانجام دے رہا ہے اب ٹائی اور سوٹ چھوڑ کر سر پر پگڑی باندھے روایتی افغان لباس شلوار قمیض پہنے سیاسی محفلوں میں شرکت کرتا دکھائی دیتا ہے۔امریکی میڈیا میں اشرف غنی کے اہل خانہ کے بارے میں تبصرے اور ان کی سرپرستی میں کابل میں این جی اوز کی طرف سے افغانستان کے مختلف شہروں میں مغربی تہذیب کے فروغ کے سلسلے میں افغان میڈیا میں خبریں آنے کے بعد 29 دسمبر 2017 ء کو کابل میں افغانستان کے شمالی صوبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے علماء نے افغان صدر اشرف غنی کی سرپرستی میں افغان عوام کو اسلام اور افغان روایت سے سیکولرازم کے نام پر مغربی اقدار کی طرف دھکیلنے جیسی کوششوں پر احتجاج کرتے ہوئے اشرف غنی کے خلاف فتویٰ بھی جاری کر دیا جس کا سارا ملبہ افغان حکومت کے نمائندے نے پاکستان اور پاکستان کے خفیہ اداروں پر ڈال دیا۔ حالانکہ پاکستان کا اس پوری صورتحال میں کوئی کردار نہیں اور نہ ہی پاکستان میں میڈیا نے کبھی افغان صدر کے اہل خانہ کو موضوع بنایا ہے۔ پاکستان کا افغانستان کے مسئلے پر سوائے وہاں قیام امن کیلئے سنجیدہ کوششوں کے اور کوئی لینا دینا نہیں نہ ہی افغانستان کی داخلی انتظامی صورتحال میں پاکستان نے کبھی مداخلت کی کوشش کی ہے‘ حالانکہ افغان خفیہ اداروں پر بھارت کی گرفت اور افغان حکومت میں اثر و رسوخ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے جس کی تازہ مثال افغان وزارت داخلہ کی طرف سے افغان میڈیا کو فراہم کیا جانے والا انتباہ کا نوٹس ہے جس میں افغان عوام کو خبردار کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے آنے والی اشیاء خورد و نوش خصوصاً ڈیری کی مصنوعات دودھ‘ مکھن وغیرہ سے پرہیز کریں کیونکہ ان میں آئی ایس آئی کی طرف سے زہر ملائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ صدیوں سے مشترک اسلامی روایات کے بندھن کی وجہ سے افغان عوام اپنے ملک میں آج کل پوری دنیا سے آنے والی اشیاء خورد و نوش پر پاکستان سے جانے والی خوراک مکھن‘ دودھ وغیرہ کو حلال ہونے کی وجہ فوقیت دیتے ہیں۔ بھارت عرصہ دراز سے اس کا توڑ کرنے کی کوشش میں ہے مگر افغان عوام بھارت سے آنے والی ڈیری مصنوعات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
علاوہ ازیں 11 نومبر 2017 ء کو بھارت کی طرف سے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان بھجوائی گئی لاکھوں ٹن گندم جس کی عالمی میڈیا میں تشہیر پر بھارتی وزارت خارجہ و اطلاعات نے خاصی رقم خرچ کی اور پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے بھارت سے افغانستان تک ایران کے راستے گندم کی ترسیل کو ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا۔ بھارتی میڈیا نے خبردی کہ افغانستان بھیجی گئی بھارتی گندم بوسیدہ اور پھپھوندی زدہ ہونے کی وجہ سے جانور بھی اسے کھانے کو تیار نہیں تھے جسے بھارت کی وزارت خوراک نے بجائے تلف کرنے کے افغانستان بھجوایا۔ بھارت سرکار نے یہ خبر شائع ہونے پر وزارت خوراک کے افسران کو معطل کرنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا اور اب پاکستان سے آنے والی ڈیری مصنوعات میں زہر ملائے جانے کا گھٹیا پروپیگنڈہ کر کے افغان عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی غلیظ کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق اور انسانیت کی اس انداز سے پامالی بھارت ہی کر سکتا ہے۔ پاکستان خوراک کو زہر آلود کرنے جیسے حربوں کو استعمال کرنے کا اور وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف تصور بھی نہیں کر سکتا اور دشمن بھی ہو تب بھی پاکستان اس طرح کے ہتھکنڈوں پر یقین نہیں رکھتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38