اپنے ماتحت سے اچھا سلوک کریں
ہمارے معاشرے میں جو لوگ تنخواہ اور عہدے کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں ان سے صلہ رحمی کرنا نہ صرف ہمارا مذہبی فریضہ ہے بلکہ ہماری معاشرتی ضرورت بھی ہے اور اخلاقی بھی کہ اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا جائے۔ دنیا میں اکثر گھروں میں ملازمین پائے جاتے ہیں وہ ملازمین اگر نہ ہوں تو گھر کے بھاری بھرکم مالکان جو اپنا ذاتی کام بھی نہیں کر سکتے۔ ان ملازمین کے بغیر گھر کا سارا نظام معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہمیں ان ملازمین کو انسان سمجھنا چاہئے۔ ہمیں ان کی بنیادی ضرورتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ یہ بھی ہماری ہی طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ ان کا دل بھی چھٹی کرنا چاہتا ہے۔ تنخواہ سے ان کی چھٹیوں کے پیسے نہیں کاٹنے چاہئیں ان پر ظلم و تشدد ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ حال ہی میں طیبہ تشدد کیس سامنے آیا ہے جوکہ ایک اسلامی ملک کے لئے نہایت شرمندگی کی بات ہے۔ ملازمین کے بغیر اگر گھر کا نظام چل سکتا تو ان ملازمین کو رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ظاہر ہے ان کے بغیر ہم لوگ گھر صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے۔ خصوصاً ملازمت پیشہ خواتین کا نظام زندگی تو ان گھریلو ملازمین کے بغیر چلانا ناممکن سی بات ہے۔ معاشرے میں بے روزگاری پر بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں غربا نے بھی آخرکار اپنا پیٹ پالنا ہوتا ہے۔ اچھا ہے کہ ہمارے ملک میں گھروں میں ملازمین رکھنے کا رواج عام ہے۔ سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہئے مگر ہمارے ملک میں افسران حضرات اپنا کام کرنے میں بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے افسر بن کر ہم گاڑی خود چلائیں۔ جس وجہ سے ڈرائیور رکھا جاتا ہے ہم افسر بن کر بوٹ پالش خود کریں‘ گھر میں جا کر صفائی خود کریں‘ کھانا خود بنائیں‘ کپڑے خود دھوئیں‘ جب یہ سوچ پیدا ہوتی ہے گھر گھریلو کام کاج کے لئے ملازمین یعنی ”چھوٹا“ یا پھر ”ماسی“ رکھی جاتی ہے۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا افضل ہے مگر مصروفیت کے اس عالم میں اب ممکن نہیں کہ سارا کام خود سے کیا جائے۔ غریب کے لئے روزگار کا بندوبست کرنا بھی نیکی کا کام ہے۔ غربت اور مہنگائی کے اس دور میں گھروں پر ملازمین اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کےلئے آتے ہیں۔ ان لوگوں سے بہترین سلوک کیا جائے۔ ان کے بنیادی حقوق کا خاص خیال رکھنا مالکان کا فریضہ ہے۔ اگر کوئی گھر کا مالک گھر میں کام کرنے والے حضرات کا خیال رکھتا ہے اس کے کپڑوں کا یعنی لباس کا خیال رکھتا ہے اس کی خوراک کا خیال رکھتا ہے تو اس مالک کا احسان نہیں بلکہ اس کا مذہبی فریضہ ہے کیونکہ ہر مالک چاہے وہ کسی دفتر کا ہو یا کسی گھر کا اپنے ملازمین کے بارے میں جوابدہ ہو گا۔ حقوق العباد کے بارے میں سختی سے سوال کیا جائے گا ایک اچھے انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے ”پیاروں“ سے پیار کرے۔ اپنے ماتحت سے صلہ رحمی کرے۔ حسن اخلاق سے بات کرے۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر معافی‘ درگزر سے کام لے۔ بڑی بڑی غلطیوں پر بھی دو تین مرتبہ سمجھائے۔ اﷲ پاک معاف کرنے والوں اور غصہ ضبط کرنے والوں کو پسند کرتا ہیں۔دنیا کے ہر دفتر میں تقریباً عہدے اور تنخواہ کے لحاظ سے چھوٹا ”پیادہ“ یعنی چپڑاسی یا آفس بوائے ہی ہوتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں تو ایک دفتر میں کئی کئی پیادے یعنی ”چپڑاسی“ ہوتے ہیں۔ ”چپڑاسی“ لفظ اپنے اندر حقارت سموئے ہوئے ہے۔ انگریزی زبان نے اس لفظ کی حقارت کو قدرے کم کر دیا ہے۔ ہمارے دفاتر میں اب پیادوں کو ”آفس بوائے“ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ گرمی‘ سردی یا بارش کے موسم میں ان لوگوں کو ہر صورت میں باہر نکلنا ہوتا ہے۔ یہ ہر دفتر میں ایک ایسا کردار ہوتا ہے جسے سارا دن بھاگ بھاگ کر افسروں کو خوش کرنا ہوتا ہے مگر بعض افسر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قسمت میں خوش رہنا نہیں ہوتا۔ کڑھنا‘ چیخنا‘ چلانا ان کا مزاج بن جاتا ہے حالانکہ سب عہدوں کی تقسیم اﷲ پاک کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے افسران یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں افسر اﷲ نے بنایا ہے۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ تمام تر عہدے اﷲ کی طرف سے دئے جاتے ہیں اگر کوئی افسر بنا تو اﷲ کا فیصلہ ہوتا ہے ماتحت بھی اﷲ کے حکم سے بنتا ہے لہذا اﷲ کے تمام تر احکامات کا احترام کرتے ہوئے ماتحت کو چاہئے کہ وہ اپنے ”باس“ کی عزت کرے اور ہر باس کو چاہئے کہ وہ اپنے ماتحت سے ہمدردی کرے۔ پیار کرے‘ عزت اور احترام سے پیش آئے‘ بعض اوقات ماتحت افسروں سے زیادہ قابل ہوتا ہے ہماری سول سروس میں وزراءکے سیکرٹری بڑے بڑے شاعر اور ادیب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اور انجینئر ہوتے ہیں جبکہ وزراءان پڑھ یا کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ عارضی طور پر بھی وزیر بنا دئے جاتے ہیں جبکہ وزارت کو چلانے والا اصل سیکرٹری ہوتا ہے۔ اگر آپ اس سیکرٹری سے کسی تکبر یا غرور میں کوئی بات کریں یا حکم جاری کریں گے تو وہ باس کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اصل مظلوم ”پیادے“ ہیں جوکم سے کم تنخواہ لے کر بھی سب سے زیادہ دوڑ بھاگ کرتے ہیں مگر پھر بھی زیرعتاب رہتے ہیں۔ انہیں زیرعتاب رکھنے کی بجائے ان سے محبت سے پیش آیا جائے تو یہ طبقہ ساری عمر اپنے افسران کا وفادار رہتا ہے۔ اور اگر ”باس“ کو جب بھی گھر سے جھاڑ پڑے اور وہ دفتر آ کر سامنے کھڑے ”پیادے“ سے بدتمیزی کرے تو ایسے افسران پھر وقت آنے پر اکیلے رہ جاتے ہیں۔ تکبر اور غرور انسان کو جیتے جی ہی تنہا کر دیتا ہے۔ تکبر کا لغوی معنی ہی ”دھوکہ“ ہے۔ لہذا ہمیں دھوکے کی زندگی گزارنے کی بجائے حقیقی زندگی میں رہتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر انسان فانی ہے۔ اس نے گھر بھی چھوڑنا ہے۔ دفتر بھی چھوڑنا ہے اور اک دن اس دنیا کو بھی چھوڑنا ہے۔ عزت اور احترام کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ چھوٹے‘ ماسی‘ ڈرائیور‘ آفس بوائے‘ مالی اور ملازم سب کو نام سے پکارنا چاہئے۔ سب سے اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ سب کا خیال رکھنا چاہئے۔ سب کے دکھ سکھ میں شریک ہونا چاہئے۔ سب سے اچھی بات ہے کہ اپنے ماتحت سے پیار کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭