سوشل میڈیا اور فرقہ واریت کا زہر
وطن عزیز کو جن لاتعداد مسائل کاسامنا ہے ان میں بے روزگاری، غربت معاشرتی بے راہ روی اور دیگر مسائل قابل ذکر ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی وسیاسی حکام کمر بستہ ہیں اور ان کے حل کے لیے سب ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔شاید اعلیٰ حکام سمجھتے ہیں کہ ان کاحل ہی وطن کی ترقی میں کلیدی کرداراداکرسکتا ہے بلاشبہ ان مسائل کاحل وطن کی معثیت کو چارچاند لگا سکتا ہے ان مسائل پر یہ حکام آج بھی سندھی،پنجابی، بلوچی،پٹھان ہونے پر نازاں ہیں کئی حضرات پاکستان کی بجائے صوبائیت پرستی کو ہوا دے رہے ہیں یہ آج بھی اپنے اعلیٰ و ارفع ہونے پر بضد ہیں یہ مسائل کوئی دوچارسال پرانے نہیں بلکہ تقسیم ہند سے وارثت میں ملے ہیں اور آج تک ہم ان کا سدباب کرنے کے جتن کررہے ہیں۔ کئی دہائی پر محیط یہ مسائل آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتے گئے لیکن ان سے وطن عزیز کو کوئی خاطرخواہ نقصان کا اندیشہ نہ ہوا نہ نظر آرہا ہے .... چندروز پہلے اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروائی میرے دوست فرحان احمد جس کی باتیں سن کر مجھے دہائیوں پر محیط مسائل بے معنی لگے اور یوں محسوس ہواکہ نوجوان سوشل میڈیا پر جو فرقہ واریت کو ہوادے رہے ہیں اس سے وطن کو نقصان کا اندیشہ ہے اگر ترجیح بنیادوں پر اس کا تدارک نہ کیا گیا تویہ فرقوں کو لڑائی جھگڑوں کی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اس سے اگلی حد خانہ جنگی بھی ہوسکتی ہے اس سے پہلے نہ تو سوشل میڈیا تھا اور نہ فرقہ واریت کی اس قدر ہواعام تھی سرزبان اگر کوئی بات تھی تووہ مسلمان ہونا تھی لیکن آج ہم مسلمان بعد میں ہیں اور اپنی پہچان مسلمان کی بجائے مسلک سے کروانے پرنازاں ہیں یہ بٹواراکرنے میں سوشل میڈیا سردست ہے اس کی بہت سی مثالیں آپ کے سامنے میں گلگت میں شعیہ سنی فساد عام دکھائی دیتا ہے اب حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آئے روز ایک فرقہ دوسرے فرقے کی گردنیں اتار رہا ہے یہ کیسے مسلمان ہیں شاید یہ فرمان الہی سے لاعلم ہیں کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لوں اور تفرقے میں نہ پڑو یہ تفرقے بازی میں اس قدر آگے پہنچ گئے کہ گردنین کاٹنا ان کے لیے فخر کی بات بن گئی حال ہی جنید جمشید کی حادثاتی موت کے بعد سوشل میڈیا پر جو نفرت انگیز مواد سامنے آیا وہ دل کو دہلا دینے والاتھا اس سے قبل راولپنڈی سے متعلق ایک نوجوان کی پھانسی پر سوشل میڈیا پردوسرے فرقے کے لوگوں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا تھا۔ ہمیں وطن عزیز کی خاطر اپنی فرقہ ورانہ سوچ کو بدلنا ہوگا۔اور پاکستانی بن کر دوسروں سے نفرت کی بجائے اتحادویگانیت کو فروغ دینا ہوگا اس معاملہ میں علماءکرام اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لہٰذا علماءپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں تاکہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بند کرکے پیاروایثار کی بات کریں نہایت افسوس کے ساتھ ہمارے سیاسی رہنما اور جماعتیں بھی مذہبی اختلافات کو کم کرنے میں کوئی موثر کردار نہیں کرسکیں اورنہ ہی حکومتی زعماءنے اس کی روک تھام کے لیے کوئی موثر کاروائی عمل میں لائی جس سے نفرت کا بڑھتا رجحان کم ہوسکے علماءپربھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ممبر رسول پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ باتوں سے اجتناب کریں،اگر علماءان کاموں سے باز نہیں آتے اور نوجوان بھی اس آگ کوبھڑکانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں توحکومت ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائے خصوصی طور پر سوشل میڈیا پرایسا مواد پھیلانے والوں کوکڑی سے کڑی سزادیں علماءکی تعلیم وتربیت کے لیے حکومتی سطح پرفرقہ ورانہ سوچ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔