آپا ں جی
اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ پچھلے تین ہفتے سے میں غیرحاضر ہوں۔باعثِ عدم دستیابی سوائے علالت کے اور کچھ نہیں۔ تاہم ان تین ہفتوں میں بہت کچھ سوچنے کا موقع مل گیا۔ ان سوچوں میں سے سب سے اہم سوچ یہ تھی کہ میاں یہ جو تم نے اپنے کالم کا عنوان ”اچھی خبر“ باندھ رکھا ہے تو یہ کیا بے ہودگی ہے؟ ہم سب کی محترمہ بانو آپا فوت ہو جاتی ہیں اور تمہارے کالم کا عنوانلا حول و لاقوةیہ عنوان اس لیے رکھا گیا تھا کہ سال سن1992میں ایک بار ایک اچھی خبر نظر آئی تھی کہ سندھ کے کسی اُجاڑ ریلوے ا سٹیشن کے ماسٹر نے ایک مال گاڑی کو سات گھنٹے کے لیے اپنے ا سٹیشن سے آگے جانے نہیں دیا تھا کہ اُس مال گاڑی کی دُم بتی نہیں تھی۔ یعنی گاڑی کے آخری ڈبے کی ، جو عام طور پر گارڈ کا چھوٹا سا ڈبہ ہوتا ہے ، ٹیل لائیٹ نہیں تھی۔ میں اس خبر سے اتنا متاثر ہُوا کہ اُن ا سٹیشن ماسٹر صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے کالم کا عنوان ”اچھی خبر“ رکھا۔ مگر چوں کہ میری تعمیر میں مضمر ہے صورت اک خرابی کیتو ہُوا یوں کہ وہ دن اور آج کا دن اپنے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’اچھی خبر‘ خال خال ہی نظر آئی۔ اب میں اچھی خبر کی تلاش میں اس قدر خوار و زبوں ہو چکا ہوں کہ اس عنوان سے وحشت ہوتی ہے۔ ہر روز اخباروں کو خوردبین لگاکر کھنگالنے سے بھی سوائے ڈاکے، لُوٹ مار، خیانت، بد دیانتی، رشوت، قتل، بم دھماکے، جعلی اور اصلی خود کُش بم بازوں، اسلامی ممالک میں خوں ریزیوں، رہنماو¿ں کی بے راہ رویوں، وزیروں کی بے تدبیریوں، حزبِ اختلاف کی کہہ مکرنیوں اور پہلوتہیوں اور اپنے ہر لحاظ سے غلیظ دامنوں کو صاف پانی سے بچائے رکھنے کے ان گنت بہانوں، تجاوزات کی بھرمار،ہر پیشے اور شعبے میں قائم مافیا دھڑوں، ملاوٹ، بلیک، عدالتوں کی بے بسیوں اور پولیس کی وڈیرہ وفا داریوں، اصلی شریف پاکستانیوں پر مظالم اور بدمعاشوں کی افزائشوں ، ٹی وی چینلز کی ہر شعبے میں نالائقیوں اور بے ہودگیوں، سو کالڈ دانشوروں کی کم ظرفیوں اور کج فرمائیوں، سینما کے نام پر مُجرہ (مُجرا) کلچر کی افزائش، ا سٹیج کے نام پر غلاظت کی ٹوکریوں کی پذیرائیوں، علم و ادب میں بد دیانتیوںآہ! کہاں تک گنواو¿ں؟! غرض یہ کہ برس ہا برس کی کھوج کے بعد بھی جب اچھی خبر عنقا ہو اور اگر کبھی نظر بھی پڑے تو خود خبر دینے والے بھی اُسے کوئی اہمیت نہ دیں تو میں کیا کرتا؟! سو اس عنوان سے تائب ہوں اور اپنی شکست تسلیم کرتا ہوں اور اس عنوان کو تج رہا ہوں۔ تو اے پیارے قارئین اب یہ سوچا ہے کہ اگلے ہفتے یہ کالم کسی مناسب عنوان کے تحت شائع ہو گا انشا اللہ۔بانو آپا، جنہیں ہم سب ادب و احترام سے آپا ں جی کہا کرتے تھے، اشفاق صاحب کے جنت والے گھر میں منتقل ہو چکی ہیں۔ وہ بہت بڑی شخصیت تھیں اور ہم سب چھوٹوں کے سر پر اُن کا سایہ نہایت مبارک تھا۔ برکتیں تو اُن کی اب بھی ہم پر جاری و ساری رہیں گی مگر افسوس وہ فاصلے پیدا ہو گئے ہیں جو نہ ہوتے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری ہدایات میں میری سب سے پہلی پروفیشنل ا سٹیج پروڈکشن بانو آپا کا کھیل ”اہلَ کرم“ تھا۔ میرے پاس ایک فائل میں آج بھی اُن دنوں اخبارات میں ’اہلِ کرم‘ کے شائع ہونے والے چھوٹے چھوٹے اشتہارات دمک رہے ہیں۔ یہ کھیل ثاقب شیخ اور کامران مفتی مرحومین نے پروڈیوس کیا تھا۔ ثاقب شیخ ڈیزائنر آرٹسٹ بھی تھے تو ا سٹیج ڈیزائن اُنہی کے تھے۔ریہرسلز کے دوران ایک دن بانو آپا ریہرسل ملاحظہ کرنے بھی تشریف لائی تھیں۔ آہ کیا دن تھے!!!اُنہیں مجھ پر اعتماد تھا کیوں کہ میری زندگی کی سب سے پہلی اسٹیج پروڈکشن الحمرا میں ایک تھئیٹر ورکشاپ کی اشفاق احمد صاحب کے ریڈیو کھیل ”بھرم“کی پروڈکشن اور ہدایات تھی جو مارچ 1964 میں ہوئی تھی۔ تو اُنہوں نے سوچا ہو گا کہ اگر یہ لڑکا اِشفاق صاحب کا کھیل کر سکتا ہے تو پھر ایک بار جنابِ آغا ناصر نے ٹیلیویژن پر بانو آپا کا ایک کھیل (ٹائٹل غالباً”اِک ترے آنے سے“تھا!)live یعنی براہِ راست نشر کردہ، کیا تھا۔ اس میں مرکزی کردار ایک بیمار بس ڈرائیور کا تھاجسے میں نے ادا کیا تھا۔ بہت ہی خوبصورت کھیل تھا کاش اس کی ریکارڈنگ ہوتی ! مگر اُن دنوں ابھی لاہور ٹی وی پر ریکارڈنگ کی سہولت موجود نہ تھی۔کاش پی ٹی وی والے اُن کھیلوں ہی کو دوبارہ پیش کر دیں جو لائیوlive ہُوا کرتے تھے!میں اکثر اِشفاق احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہُوا کرتا تھا ۔ وہ بڑے دیالو تھے۔ سب سے اہم واقعہ جو یاد آ رہا ہے وہ 1997 میں اِشفاق صاحب کے لکھے کھیل ”قائدِ اعظم “ کے نشر ہونے کا ہے۔ڈھائی گھنٹے کے دورانیے کا یہ کھیل، جس میں جناح صاحب کی تمام دستیاب فلمیں استعمال کی گئی تھیں اپنی نوعیت کا واحد کھیل ہے اور آج کل پی ٹی وی کے نہاں خانوں میں دفن ہے۔ محکمہ¾ آثارِ قدیمہ سے درخواست ہے کہ اشفاق احمد صاحب اور جناح صاحب کے اس قوم پر اتنے احسانات ضرور ہیں کہ خیر دفع کریں ۔ تو ہُوا یہ کہ 25 دسمبر رات بارہ بجے کے بعد جب یہ کھیل نشر ہو چکا تو میں نے اشفاق صاحب کے ہاں فون کیا ۔ میں فطری طور پر اُن کے تاثرات جاننا چاہتا تھا۔ فون بانو آپا نے اُٹھایا اور میرے سلام کا جواب دینے کے بعد آپاں جی نے کئی منٹ تک میری تعریف و توصیف میں یہ کہہ کہہ کر داد دی ِ ”بختیار اس کھیل میں رائٹر کا کوئی کمال نہیں ہے۔
تم نے بے مثال کام کیا ہے ۔“ اور کئی بار اسی نوعیت کے جملے کہہ کر میرا دماغ زمین سے لگا دیا تو اِشفاق صاحب نے آپاں جی سے فون لیا اور فرمایا،”اوئے یار اس کی باتوں میں نہ آنا یہ تو مجھ سے جلتی ہے۔ دراصل اسے کبھی اچھا پروڈیوسر ملا ہی نہیں“یوں میں ایک ناچیز کافی بلند رُتبے پر فائز ہو گیا۔ اگر کوئی کام کا جاننے والاآپ کے کام کی تعریف کرے تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ حقیقی تعریف وہی کر سکتا ہے جو خود پیشہ ور ہو۔ میں بہت کم مایہ ہوں مگر آپاں جی آپ نے مجھے رئیس کر دیا تھا۔ آپ کا شکریہ۔ مجھے وہ مٹھائی بھی یاد ہے جو آپاں جی آپ نے اشفاق صاحب کی علالت کے دنوں میں اُن کی طبیعت سنبھلنے پر کھلائی تھی۔ اور وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب اشفاق صاحب کو اُن کی آخری آرام گاہ میں پہنچانے کے بعد جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ”آپاں جی آج ہم اس دور کے آخری دانشور کو آسودہ¿ خاک کر کے آ رہے ہیں۔“ اور آپ نے صاد فرماتے ہو ئے کہا تھا ”تم ٹھیک کہہ رہے ہو“ ۔ آپاں جی ہم آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔اللہ آپ دونوں کے درجات اور بھی بلند فرمائے آمین!