حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی
محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ، شاہبازِ لامکانی
محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، غوث صمدانی ، شاہبازِ لامکانی ، پیرپیراں، میرمیراں، شیخ عالم ، غوث اعظم ، غوث الثقلین ، امام الطائفتین ،
سلطان الاولیاء، شاہِ اصفیاءمحی الدین سیّدنا عبدالقادر جیلانی الحسنی و الحسینی کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔رب ذوالجلال نے آپ کو بے پایاں شان عطا فرمائی ہے اور اولیائے کرام میں آپؓ کو وہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا ہے جو انبیاءکرام اور رسل عظام میں حضور خاتم النبین کا ہے۔
غوث اعظم درمیانِ اولیائ
چوں محمد درمیانِ انبیاء
حضرت غوث نجیب الطرفین سیّد ہیں اور یہ بات اس تواتر سے صحیح ثابت ہے کہ اس میں کسی طرح کا اختلاف و نزاع نہیں اس لیے اگر کوئی حاسد و متعصب انکار کرے تو یہی کہنا کافی ہے ۔
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ¿ آفتاب را چہ گناہ
حضرت مولانا جامی اپنی کتاب” نفحات الانس من حضرات القدس “میں تحریر فرماتے ہیں ۔”سیّدنا شیخ عبدالقادر ثابت النسب سیّد ہیں۔ جامع حسب و نسب ہیں۔ والد بزرگوار کی طرف سے حسنی اور والدہ کی نسبت سے حسینی ہیں“۔
آپ کی ذات بابرکات کے بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ نے فرمایا : ”حضرت غوث پاک کا حال اور معاملہ بھی عجیب و غریب ہوا ہے ۔حضرت کی شبِ ولادت با سعادت میں دو سو بیس مولود تولد ہوئے اور حضور کی برکت سے سب کے سب اولیاءہوئے۔ بچپن میں حضور غوث پاک اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، ناگاہ ایک گائے اس طرف آئی اور کہنے لگی کہ عبدالقادر! تجھے اس کام (کھیل )کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ جب غوث پاکؓ کی عمر چند سال کی ہوئی تو علم حاصل کرنے کے لیے سفر کا ارادہ فرمایا۔ حضرت کی والدہ ماجدہ نے چند دینار آپ کی گودڑی میں ٹانک دیے کہ سفر میں کام آویں گے اور بوقت رخصت نصیحت فرمائی کہ اے فرزند! ہر گز جھوٹ نہ بولنا۔ (حضرت کی والدہ ماجدہ بھی صاحب ولایت تھیں) ۔ حضرت رخصت ہو کر ایک قافلہ کے ساتھ چلے۔ دوران سفر ڈاکوﺅں کے ایک بھاری گروہ نے قافلہ کو گھیر لیا۔ ان کے سردار نے حضرت سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے ؟ حضرت نے فرمایا۔ ہاں میری اس گودڑی میں چند دینار ہیں۔ سردار کو یقین نہ ہوا۔ اس نے خیال کیا کہ شاید بطور خوش طبعی فرما رہے ہیں کیونکہ کوئی شخص اپنے درہم بھی ظاہر نہیں کرتا چہ جائیکہ دینار۔ اسی طرح اورڈاکوﺅں نے بھی یکے بعد دیگرے آپ سے پوچھا تو حضرت سب کے جواب میں یہی فرماتے رہے ۔آخر الامر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس دینار ہیں تو ظاہر کرو۔ حضرت نے فی الفور دینار گودڑی سے نکال کر سامنے کر دیئے ۔سب ڈاکو حضرت کی صداقت و راست بازی سے متعجب و حیران ہو کر سچائی کی وجہ پوچھنے لگے۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے میری والدہ محترم نے بوقت وداع نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ نہ بولنا، اس واسطے بموجب فرمان حضرت والدہ ماجدہ جو کچھ میرے پاس تھا سچ سچ ظاہر کر دیا۔ وہ سب لوگ اپنے گذشتہ اعمال پر پشیمان ہو کر کہنے لگے سبحان اللہ ! اس شخص نے باوجود خطرہ کے اپنی والدہ کی نافرمانی روا نہیں رکھی ۔ادھر ہم ہیں کہ اپنے مالکِ حقیقی کی نافرمانی میں مشغول ہیں۔ سب نے حضرت کے دستِ مبارک پر توبہ کی اور بداعمالی سے پشیمان و تائب ہو کر عذابِ الیم سے نجات پائی“۔ یہ حضرت غوث پاک کی پہلی کرامت تھی۔
ایک اور ملفوظ میں ارشاد ہے کہ ”جو لطافت دوسرے اولیاءاللہ کی روحوں کو حاصل ہے وہ حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کے بدن مبارک کو حاصل ہے۔گویا آپ کا بدن مبارک دوسروں کی روحوں کے مرتبہ میں ہے ۔حضرت کے عہد بابرکات میں ایک سوداگر نے ایک دن حضرت کے خادم کو آپ کے لیے نہایت قیمتی لباس خریدتے دیکھ کر خیال کیا کہ اس درویش کا مرتبہ کہاں تک پہنچا ہے کہ ایسا بیش قیمت کپڑا جو اس درویش کے خادم نے طلب کیا ہے ، شاہانِ وقت بھی نہیں پہنتے۔ اس خیال کے دل میں آتے ہی اس شخص کو ایسا مرض لاحق ہوا جو کسی علاج سے اچھا نہ ہوتا تھا۔ بالآخر حضورکی خدمت میں حاضر ہوا ۔حضرت نے متبسم ہو کر فرمایا کہ جو شخص عبدالقادرسے غیرت برتے وہ ایسی ہی سزا کا مستحق ہے ۔حضرت کے ایک قصیدہ میں اس مضمون کا بیان ہے کہ ہم کوئی چیز از قسمِ ماکولات و ملبوسات ہر گز استعمال نہیں کرتے تا آنکہ عالم غیب سے اس کے استعمال کا ارشاد نہیں ہوتا۔ یہ شعر اسی قصیدہ کا ہے ۔
وما قلت حتیٰ قیل لی قل ولا تخف فانت ولی فی مقام الولایة
(میں نے کوئی بات نہیں کہی مگر اس وقت جب کہ ارشاد ہوا کہہ اور خوف نہ کر کیونکہ تو مقام ولایت میں میرا مخصوص ولی ہے )“
مہر منیر میں بحوالہ اخبار الاخیار مصنفہ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی تحریر کرتے ہیں کہ ” جب خاتم نبوت کی خلافت حضرت علیؓ کی ذات گرامی تک پہنچی تو اس شجرِ علم و ولایت سے درختِ طوبیٰ کی مانند بے شمار شاخیں پھوٹیں ، جن کے کمالات ہر جانب سایہ فگن ہوئے اور ساری دنیا حضرت علیؓ کے نور ِجمالِ ولایت سے روشن ہو گئی۔ بالخصوص رسول اللہ کی اولا د عالی نژاد نے بحکمِ وراثتِ حقیقی اور مناصبِ ذاتی ،ولایت کا پورا پورا حصہ اور فیض حاصل کیا۔ اور اپنی عصمتِ ذاتی کی بناءپر ولایت معنوی کا علم بلند کرتے ہوئے ظاہری حکومت دوسروں کے لیے چھوڑ دی۔ خاندانِ نبوت سے نورِ ولایت نہ تو کبھی منقطع ہوا، نہ ہوگا اور آسمانِ ولایت نے بغیر ان اقطاب کے کبھی قرار نہیں پکڑا۔ ان ہی میں سے اللہ تعالیٰ نے جسے چاہا قطب الاقطاب ، غوثِ بنی آدم اور مرجعِ جن و انس بنا کر مشرق و مغرب میں مشہور و معروف کر دیا اور حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی کو دین اسلام کا دوبارہ زندہ کرنے والا بنایا۔ اگر چہ جمال محمدی تمام آل میں تابان و درخشاں ہے مگر محی الدین سیّد عبدالقادر جیلانی میں اس کا کچھ اور ہی رنگ ہے جو حقیقتاً جمال احمدی اور کمالِ محمدی کا مظہر اتم ہے “۔
حضرت مجدد الف ثانی نے مکتوبات شریف دفتر سوم مکتوب ۱۲۳میں تحریر فرمایا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہونے کے دوراستے ہیں۔ پہلا راستہ قرب نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور یہی اصل الاصل ہے اور اس راستے کے واصلان انبیاء ؑ ہیں اور ان کے اصحاب۔ اور تمام امتوں میں سے جن کو بھی وہ اس ذریعہ ¿ دولت سے نوازنا چاہیں ان میں شامل ہیں۔ دوسرا راستہ قرب ولایت کا ہے ۔جس کے ذریعے اقطاب ، اوتاد، ابدال ، نُجباءو عام اولیاءواصل باللہ ہوتے ہیں۔ ”راہ سلوک“ اسی کو کہتے ہیں۔ اس راستے کے واصلین کے پیشوا اور ان کے فیض کا منبع حضرت علی المرتضیٰ ؓہیں اور حضرت سیّدہ فاطمہؓ و حضرات حسنینؓ اس مقام میں ان کے ساتھ شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت علیؓ قبل از ظہور ِ وجودِ عنصری بھی اس مقام پر فائز تھے اور اس راہ کے واصلین آپ ہی کی روحانیت کے توسل و واسطہ سے منزل مقصود تک پہنچتے رہے۔ آپ کے بعد یہ منصب علی الترتیب حسنین کریمینؓ کو تفویض ہوا اور پھر یکے بعد دیگر ائمہ اہلِ بیت کرام اس مقام پر فائز ہوئے۔ ان سے ماسوا جن کو بھی مذکورہ مقامات عطا ہوئے ان ہی کے واسطے سے ہوئے۔ حتیٰ کہ حضرت غوث الاعظم کا دور آنے پر یہ منصبِ عظیم یعنی قطبیتِ کُبریٰ آپ کی ذات سے مختص کر دیا گیا۔ اب جس کسی کو بھی اس راستے سے فیض و برکات حاصل ہوتی ہیں، آنجناب کے توسط سے ہی ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے مامور من اللہ ہو کر ”قدمی ھذہ علیٰ رقبة کل ولی اللّٰہ “ ارشاد فرمایا تو تمام اولیاءکرام نے اپنی گردنیں خم کر دیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ان دنوں خراسان کے پہاڑوں میں مجاہدات اور ریاضات میں مشغول تھے۔ آپ نے بھی روحانی طور پر غوث الاعظم کا مندرجہ بالا ارشاد گرامی سن کر اپنی گردن اس قدر خم کی کہ پیشانی زمین کو چھونے لگ گئی اور عرض کی کہ ”قد ماک علیٰ را¿سی و عینی۔۔۔۔آپ کے دونوں قدم میرے سر اور آنکھوں پر ہوں“۔
ہمارے اعلیٰ حضرت قبلہ عالم گولڑوی قدس سرہ العزیز کو حضرت محبوب سبحانی سے خصوصی نیاز تھا اور انہی کی توجہاتِ گرامی نے ہر جگہ آپ کی دستگیری فرمائی جن کا اظہار آپ نے متعدد مقامات پر فرمایا۔ جب حکومت برطانیہ نے آپ کو جلاوطن کرنے کا پروگرام بنایا تو حضرت قبلہ عالم یہ سن کر مسکرا دیئے اور فرمایا کہ جو حکومت مجھے جلاوطن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خود اس کے متعلق کیا ارادے ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے بحضور جناب غوث پاک پنجابی زبان میں استغاثہ پیش کیا
رو رو لکھیے چھٹیے درداں بھرئیے، پتہ پچھیں بغداد دے واسیاں دا دیہویں جا سنیہڑا دُکھاں بھریا، انہاں اکھیاں درس پیاسیاں دا
آہیں سولاں بھریاں سینے سڑے وچوں نکلن
حال ایہہ ہے سدا اداسیاں دا
تیرے مُڈھ قدیم دے بردیاں نوں لوکی دس دے خوف چپڑاسیاں دا
دستگیر کر مہر توں مہر علی تے کون باجھ تیرے اللہ راسیاںدا
دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے حبیب پاک ، اُن کی اولاد پاک اور اولیاءو مقبولانِ بارگاہِ ایزدی خصوصاً حضرت سیّدنا غوثِ اعظم کے صدقے ہمیں اپنے سایہ¿ رحمت و عاطفت میں جگہ دے اور ہمارے دین و دنیا سنوار دے۔ آمین
٭٭٭
پیرانِ پیر
پیکر ولایت، حُسنِ خیالَت، وجہِ سکوں، پیرانِ پیر
یاد میں توری سانجھ سکارے تڑپَت ہوں پیرانِ پیر
خاکِ درَت را سُرمہ سازَم، دیدئہ دل پُرنور شود
بن کر چرنَن سَیوک تورا، سدا جیوں پیرانِ پیر
چشمِ کرم بر حالِ خرابم، چارہ گرِ ہر درد توئی
تجھ بن دُکھیا من کی بپتا کس سے کہوں پیران ِپیر
از غمِ ہِجراں بیدم و بے جاں، تشنہ¿ دیدم اے شہِ والا
اسوَن دیپ جلائے کب تک، راہ تکُوں پیرانِ پیر
اے شہ جیلاں، از غمِ عِشقَت، جان و دلم پُر نور شدہ
کیوں نہ خوشی سے زخم توری چاہت میں سہوںپیرانِ پیر
بندئہ کوچہءقطبِ زمانم، نیست غم و اندیشہ¿ محشر
آپ کی چھایا سرپر لے کیوں چِنتا کروں پیرانِ پیر
در غمِ جاناں راحت یابَم حاجتِ درماں نیست معیں
جِیون آشا ہے اِس دُکھ کے، سنگ جیوں پیرانِ پیر
﴾٭٭٭﴿
کلام:۔ پیر سیّد غلام معین الحق گیلانی
گولڑہ شریف
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،